Freedom University

High-Tech, High-Touch For Your Higher Education

قانون ضابطے اور نورا گیم

Qanoun zabte aur noura game

اشفاق کی کل برات جانا تھی کہ اس کی ہمشیرہ کا سسر چل بسا۔ اشفاق کو اس کی اس ناشایستہ حرکت پر بڑا غصہ آیا۔ جل

 کر بولا چاچے کو جیتے جی چھیتیاں رہی ہیں اب مرنے کے معاملہ میں بھی بڑا جلدباز ثابت ہوا ہے۔ اشفاق کا سٹپٹانا عمل ناجاءز نہیں لگتا لیکن ہونی کے کون سر آ سکتا ہے۔ ہونی ویدی ہے اور ویدی کا ویدان کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ہونے کو تو ہر حال میں ہونا ہی ہوتا ہے تاہم تحمل میانہ روی اور سوچ سمجھ سے کام لینا آتے کل کو آسودہ رکھتا ہے۔ ہما کے سسر نے جانے کتنے دن اس  انتہائ اقدام کے لیے سوچا ہو گا۔ اشفاق کا معاملہ بھنگ ہوا اس سے ہما کے سسر کو کیا مطلب ہو سکتا تھا۔

ہر کوئ اپنی ترجیع کو اولیت دیتا ہے‘ دینی بھی چاہیے لیکن فریق  ثانی کو تو پابند نہیں کیا جا سکتا۔  فریق  ثانی اگر ماڑا ہے تو وہ مجبوری کے تحت خفیہ ہو سکتا ہے۔ اس میں سچا یا جھوٹا ہونے کا کوئ سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہر کوئ سامنے سے وار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ یہ فطری سی بات ہے کہ دو متصادم فریق طاقت کے حوالہ سے ایک ہی کیلیبر کے نہیں ہو سکتے۔ ایک ہی کیلیبر کے ہونے کی صورت میں ان کے درمیان تصادم نہیں ہو گا۔ ان کا ہر اگلا دن منگل ہو کا اور منگل ناغے کا دن ہوتا ہے۔ طاقت حق پر ہوتی ہے اور اسے اپنا اور اوروں کا غصہ  ماڑے پر آتا ہے۔ آنا بھی چاہیے ماڑا ہوتا کس لیے ہے۔

دہشت گردی بلا شبہ پوری انسانیت کے جسم پر ناسور کا درجہ رکھتی ہے اور اس کا ہر حال میں ختم ہونا امن آسودگی اور سکون کے لیے ضروری ہے لیکن یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ دہشت گردی ہے کیا اور امریکہ کس قسم کی دہشت گردی کے خلاف پاکستان سے یمن تک لڑ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ القاءدہ دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے اور وہ القاءدہ کو نہیں چھوڑے گا۔ جعلی ادویات سے لوگ مرے ہیں اور مرتے رہتے ہیں  یہ کاروبار دہشت گردی نہیں ہے؟ اس کے خلاف کیا ہوا اور کیا ہو سکتا ہے‘ سب جانتے ہیں۔ جعلی سپرے خریدا گیا معاملہ کورٹ کچہری گیا‘ کیا ہوا۔۔۔۔۔ سب جانتے ہیں‘ کچھ بھی نہیں۔ ڈینگی نے تن مچاءے رکھی‘ آتے موسم میں کیا گل کھل سکتا ہے کوئ پوشیدہ بات نہیں۔ مہامنشی‘ جیون دان منشی‘ اعلی شکشا منشی‘ منشی  بلدیات وغیرہ کے خلاف کیا ہوا‘ سب جانتے ہیں‘ کچھ بھی نہیں ہوا۔ اگر یہ داخلی کاروباری دہشت گردی ہے اور اس دہشت گردی سے خود پاکستان کو لڑنا ہے تو القاءدہ کس حوالہ سے خارجی دہشت گردی  ٹھرتی ہے۔ القاءدہ جانے اور پاکستان جانے‘ یہ کس طرح امریکہ بہادر کی سردردی قرار پاتی ہے۔

اشفاق کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی داخلی بھی ہے اور خارجی بھی۔ اگر طبی امداد باہم کرنے میں محکمہ جیون دان پھرتی دکھاتا اور غفلت سے کام نہ لیتا تو ہو سکتا ہے ہما کا سسر چند روز اور جی لیتا۔  ہما کے سسر کی موت کا مدا خارجی دہشت گردی کے حوالہ سے امریکہ پر بھی نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ وہ صرف اور صرف القاءدہ دہشت گردی کا ٹھکیدار ہے۔ تاہم بقول صدر آصف علی زرداری  دنیا کا مستقبل جمہوریت میں ہے۔ ہما کے سسر کی موت کو ایک اکثریت تسلیم کر چکی ہے۔ اس حوالہ سے اسے داخلی یا القاءدہ سے متعلق  دہشت گردی نہیں فرض کیا جا سکتا۔ اس نہج کی  دہشت گردی کے خلاف کسی قسم کا ایکشن لینا امریکہ کے کھاتے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ سراسر جمہوریت کی تو ہین ہو گی جو اس جمہوری دور میں بہت بڑے جرم کے مترادف ہے۔ غداری کا فتوی بھی صادر ہو سکتا ہے۔

مسجد کی تعمیر کا مہشورہ ہوا۔ گاؤں کے لوگ جمع ہوءے جن میں نورا بھی شامل تھا۔ ہر کسی نے حب توفیق اپنا حصہ لکھوایا۔ ابھی کافی لوگ موجود تھے لکھت پڑھت  پر وقت لگ جاتا۔ نورا دھڑلے سے اٹھا اور بولا لکھو میرا پچاس ہزار۔ اس کی اس فراخ دلی پر بڑی جءے جءے کار ہوئ۔ ہر کوئ چوہدری نور محمد صاحب کو جھک جھک کر سلام و پرنام کر  رہا تھا۔ مزید اگراہی کی ضرورت ہی نہ تھی لہذا مجلس برخواست ہو گئ۔ اگلی صبح مولوی صاحب چند لوگوں کے ساتھ چوہدری نور محمد صاحب کے در دولت پر جا پہنچے۔ چوہدری نور محمد صاحب بڑی شان سے باہر نکلے۔ مولوی صاحب نے پچاس ہزار رپوؤں کا تقاضا کیا۔  چوہدری نور محمد صاحب بڑی معصومیت سے بولے

 

 “کون سے  پچاس ہزار روپیے؟“

“وہی جو آپ نے کل لکھواءے تھے۔“

“وہ دینے بھی تھے؟“ چوہدری نور محمد صاحب نے بڑی حیرت سے پوچھا

“جی ہاں“

“ارے میں تو سمجھا تھا کہ صرف لکھوانے ہیں۔“

اس  مثال کے حوالہ سے بھی ہم کسی پر دہشت گردی کا الزام نہیں رکھ سکتے کہ کرنا اور کہنا قطعی دو الگ چیزیں ہیں۔ کاروباری دہشت گردی کے لیے سرکاری پروانے جاری ہوتے ہیں اس لیے جعلی ادویات خوری سے لوگ مرے ہیں تو اس میں کاروباری دہشت گردی کس طرح ثابت ہوتی ہے۔ ایک نمبر کاروبار میں بچت ہی کیا ہوتی ہے۔ لوگ ملاوٹ آمیز غذا کھا کر تل تل مرتے ہیں۔ مرتے تو ہیں نا! یہاں فورا مر گءے۔ ایک دن مرنا تو ہے ہی‘ دو دن پہلے کیا دو دن بعد میں کیا۔ اپنی اصل میں بات تو ایک ہی  ہے۔

ادویات لاءسنس کے بغیر تو تیار نہیں ہوئ ہوں گی۔  موت ٹھوس اور اٹل حقیقت ہے لوگ ادویات سے نہ مرتے تواپنی آئ سے اناللله ہو جاتے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وعدہ باز بہت کچھ کہتے آءے ہیں۔ اقتدار میں آکر انھوں نے عوام کے لیے کبھی کچھ کیا ہے۔ نہیں۔ ان کے نہ کرنے کے خلاف کبھی کوئ قابل ریکارڈ رولا پڑا ہےِ؟ نہیں‘ بالکل نہیں۔ تو اب کیوں شور مچایا جا رہا۔ سرکاری معاملہ ہے۔ این آر او کے تحت اس مدے پر مٹی ڈالنا ہی جاءز اور مناسب بات لگتی ہے۔

 مولانا فضل الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم معاملات پر تجاوز مانگ تو لیتے ہیں‘عمل درامد نہیں کرتے۔ مولانا پرانے سیاسی اور مذہبی لیڈر ہو کر بھی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتاءیں آج تک کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی لیڈر کا کرنا اور کہنا مساوی رہا ہو ۔ یہ دو الگ سے امور ہیں لہذا انھیں الگ الگ خانوں میں رکھ کر سوچنا اور زیر بحث لانے کی ضرورت ہے اور کسی سطع پر آلودگی نہیں ہونی چاہیے ورنہ خرابی اور فساد کا دروازہ کھل جاءے گا یا کسی مذہبی کے کہنے اور کرنے میں کسی بھی سطع پر توازن ملتا ہو۔ یہ بات بالکل ایسی ہی ہے کہ کوئ آدمی بستر پر سو بھی رہا ہو اور دفتر میں کام بھی کر رہا ہو۔ کہنے اور کرنے کو دو الگ حتیتیں دی جاءیں گی تو خرابی جگہ نہ پا سکے گی۔ کہہ کر نہ کرنا ہی تو نورا گیم ہے۔ اگر نورا خاموش رہتا تو جءے جءےکار کیسے ہوتی اور وہ نورا سے چوہدری نور محمد کیسے اور کن بنیادوں پر کہلاتا؟!

ان حقاءق کے تناظر میں اشفاق کو بھی این آر او قانون اور سرکاری ضابطے کو بھولنا نہیں چاہیے اور اپنی بہن کے سسر کی موت پر مٹی ڈالنی چاہیے۔

 

Views: 48

Reply to This

Badge

Loading…

Events

© 2025   Created by John Santiago.   Powered by

Badges  |  Report an Issue  |  Terms of Service