Freedom University

High-Tech, High-Touch For Your Higher Education

khudi baich kar amiri main naam paida kar
 

خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر

ایک شخص چور کے پیچھے بھاگا جا رہا تھا۔ رستے میں قبرستان آ گیا۔ چور آگے نکل گیا جبکہ وہ شخص  قبرستان میں داخل ہو گیا۔

کسی نے پوچھا یہ کیا؟ 

اس نے جوابا کہا اس نے آخر آنا تو یہاں پر ہے نا۔

 ایک اخباری اطلاع کے مطابق لاہور ہاءیکورٹ نےتوہین عدالت کے حوالہ سے اعلی شکشا منشی کالجز کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کر دءے ہیں۔ یہ کاروائ ڈی ڈی سی (کالجز) ڈاکٹر اکرم کی رٹ کے حوالہ سے عمل میں آئ ہے۔ ڈی ڈی سی (کالجز) ڈاکٹر اکرم اپنی جیت کے نشہ سے سرشار ہوں گے۔ اعلی شکشا منشی کالجز  کے قابل ضمانت وارنٹ جاری ہونا کوئ ایسی عام اور معمولی بات نہیں۔ عدالت نے وہی کیا جو کیا جانا چاہیے تھا۔ منصف قانون کے داءرے میں رہتا ہے اور قانون کی حدود کسی کو توڑنے نہیں دیتا۔ کالا گورا ماڑا تگڑا گریب امیر قانون کی نظروں میں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

عدالت نے جو کیا درست کیا اور درست کے سوا کچھ نہیں کیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈی ڈی سی(کالجز) ڈاکٹر اکرم نے اعلی شکشا منشی کالجز ہاؤس کے مروجہ اصول و ضابط کی پھٹیاں اکھیڑنے کی جسارت  تو نہیں کی؟

 اگر اس نے ایسا کیا ہے تو اپنے انجام کو کیوں بھول گیا۔ کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ آخر لوٹ کر آنا تو یہاں پر ہی ہے۔ کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ اعلی شکشا منشی کالجز ہاؤس میں بڑے بڑے پھنے خانوں کی زندہ ہڈیاں بوٹیاں دفن ہیں۔ کوئ نشان تک نہیں تلاشا جا سکتا۔ اب صرف اور معاملہ ہے لیکن آتے وقتوں میں اس معاملے کے بطن سےان گنت معاملات جنم لیں گے۔

یہ بڑے کمال کا سچ ہے کہ اس عہد کی عدلیہ آتے کل کے لیے اعی درجے کا حوالہ چھوڑ جاءے گی۔ اس کا کردارمثال بنا رہے گا۔ عدالت کو کوئ اور کام نہیں جو ڈاکٹر اکرم کےمعاملات کو دیکھتی پھرے گی۔ کہاں تک بھاگیں گے۔ دوڑ دھوپ کرنے والوں کو پہاڑ کے نیچے آنا ہی پڑتا ہے۔ جو بھی مہا منشی ہاؤس سے ٹکرایا ہے عبرت کی جیتی جاگتی تصویر بن گیا ہے۔ کوئ مائ کا لال پیدا نہیں ہوا جو ان کی پہلی رکات سے بچ کر نکل گیا ہو۔ یہ بھی کہ کسی ریسرچ اسکالر کو ہمت نہں ہو سکی کہ وہ یہاں بلڈوز ہونے والوں کا اتا پتا دریافت کرنے کی ہمت کر پایا ہو۔ یہ ہڈیوں بوٹیوں کا بلا کنار سمندر ہے۔ میں سب جانتے تجربہ رکھتے اور بلا مرہم زخمی ڈاکٹر اکرم کی  ہڈی بوٹی کی خیر کی دوا کےلیے دست بہ دعا ہوں۔ تصویری نمایش کے شوقین اس کمزوروں کے پرحسرت قبرستان کی جانب شوقین نظریں اٹھا کر تو دیکھیں نانی نہ یاد آ گئ تو اس پرحسرت قبرستان کا نام بدل دیں۔

ہمارے ہاں تعلیم عام کرنےکی رانی توپ سے دعوے داغے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر ناخواگی کے بیج بوءے جاتے ہیں۔ اعلی اور تحقیق سے متعلق تعلیم کی راہوں میں مونگے کی چٹانیں کھڑی کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں صرف ایک حوالہ درج کرنے کی جسارت کروں گا۔ ۔حساب  شماریات  وغیرہ این ٹی ایس میں شامل ہوتے ہیں۔ آرٹس والوں کا ان مضامین سے کیا کام ۔ اس ٹسٹ میں ان کے مضامین سے متعلق سوال داخل کءے جاءیں۔ یوں لگتا ہے یہ مضامین انھیں فیل کرنے یا ٹسٹ میں حصہ نہ لینے کی جرات پیدا کرنے کے لیے این ٹی ایس سی میں داخل کءے گءے ہیں۔

حساب اور شماریات کا تعلق چناؤ وغیرہ سے ہے۔ ان مضامین کا چناؤ ٹسٹ میں شامل کرنا بےمعنی اور لایعنی نہیں لگتا۔ ایک اخباری خبر کے مطابق چناؤ کے حوالہ سے بارہ کروڑ روپے سکہ راءج الوقت  بھاؤ لگ گیا ہے۔ اگر یہ رقم کسی گریب آدمی کو دے دی جاءے تو وہ اتنی بڑی رقم دیکھ کر ہی پھر جاءے گا۔ اگر چیڑا اور پکا پیڈا نکلا تو گنتے گنتے عمر تمام کر دے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ گنتی کے دوران ہی کوئ ڈاکو لٹیرا اسے گنتی کی مشقت سے چھٹکارا دلا دے۔ حساب اور شماریات اگرچہ بڑے اہم اور کام کے مضامین ہیں لیکن ان کا متعلق پر اطلاق ہونا چاہیے۔ غیر متعلق پر اطلاق  بڑا عجیب وغریب لگتا ہے۔

عجیب ہو یا نہ ہو' اس معاملے کا تعلق غربت سے ضرور ہے۔ جمہوریت امریکہ سے درامد ہوئ ہے۔ یہ مقامی عربی یا اسلامی نہیں ہے۔ اس کا نعرہ ہے:

 عوام کی حکومت  حکومت تو الله کی ہے۔

عوام کے ذریعے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا الله' کدھر گیا۔

عوام کے لیے  وڈیرے کیا ہوءے۔ وہ حکومت کرنے کے لیے باقی رہ جاتے ہیں۔ گویا وہ سرکار ٹھرتے ہیں اور عوام رعایا۔

براءے نام سہی رعایا عوام کا حوالہ موجود ہےاور  یہ رعایا عوام کی تسکین  کا بہترین موجو ہے۔ بارہ کروڑ  بھاؤ نے تو براءے نام رعایا عوام کی  اصل حیقیت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ میری اس دلیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ حساب اور شماریات جیسے مضامین ہر کسی  کے لیے  ہو ہی نہیں سکتے۔ ہاں البتہ مال خور منشی شاہی کے لیے بھی لازمی سے لگتے ہیں۔ ان  کی سلیکشن کے حوالہ سے ان مضامین کی برکات کو نظرانداز کرنا مال خور منشی شاہی کو  ناقابل تلافی نقصان پہچانے کے مترادف ہے۔

اقبال ساری عمر خودی خودی کرتا رہا اور خودی میں ترقی بتاتا رہا۔ میں نے تو آج تک خوددار لوگوں کو ذلیل وخوار ہوتے دیکھا ہے۔ اپنی اور سماجی خودی بیچنے والے نام پیدا کرتے آءے  ہیں ۔جمہوریت کے لفافے میں انھوں نے قومی آزادی عزت اور حمیت کا خون ملفوف کیا ہے۔ اس کارنامے کے صلہ میں پیٹ بھر کھایا ہے اور محلوں میں اقامت رکھی ہے۔ عہد حاضر میں خودی وکاؤ مال ہو گئ ہے۔ جو بھی رج کھاناچاہتا ہے اسے اقبال کے کہے پر مٹی ڈال کر اس کے مصرعے کو یوں پڑھنا اور اسی حوالہ سے زندگی کرنا ہو گی:

خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر

اگر کوئ اقبال  کے فلسفے پر جما رہا تو نام پیدا کرنے کا خواب گلیوں میں بےچارگی اور شرمندگی کی زندگی بسر کرے گا۔ خودی کو زندگی کا مقصد بنانے والے ہوم گورنمنٹ سے بھی چھتر کھاتے دیکھے گءے ہیں۔

Views: 40

Reply to This

Badge

Loading…

Events

© 2025   Created by John Santiago.   Powered by

Badges  |  Report an Issue  |  Terms of Service