High-Tech, High-Touch For Your Higher Education
خدا بچاؤ مہم اور طلاق کا آپشن
خدا بچاؤ مہم کا بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے آغاز کیا گیا۔ کسی نے اس جانب توجہ ہی نہ کی کہ خدا تو سب کو بچانے والا ہے۔ وہ ہر گرفت سے بالا ہے۔ پوری کاءنات اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اگر وہ خدا منکر لوگوں کا رب نہ ہوتا تو وہ سارے کے سارے بھوک پیاس سے مر جاتے۔ وہ تو ساری کاءنات کا مالک و خالق ہے۔ یہی نہیں وہ تو اپنی مرضی کا مالک ہے۔ اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں بلکہ ہر کوئ اس کی مرضی و منشا کے تابع ہے۔ کسی نے یہ غور کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہی ہے لیکن ہمارے اور ان کے خدا میں زمین آسمان کا نظریاتی فرق ہے۔ ان کا خدا تین میں تقسیم ہے جب کہ ہمارا خدا تین نہیں‘ ایک ہے۔ وہ تقسیم کے نقص سے بالا ہے۔
خدا بچاؤ مہم کے لیے اسلحہ اور ڈالرز کی بارش ہو گئ۔ خدا بچاؤ مہم میں شامل لوگ مالا مال ہو گءے۔ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ گءے تھے۔ وہ شیطان کی ہولناک چال کو سمجھ نہ سکے۔ خدا بچاؤ مہم میں ان گنت بچے بوڑھے عورتیں اور گھبرو جوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وہ تو ان موت کے گھاٹ اترنے والوں کا بھی خالق ومالک ہے۔ خدا بچاؤ مہم کے ڈالر خوروں کو رجعت پسند‘ شر پسند اور بنیاد پرست کہہ کر زندگی سے محروم کیا گیا۔ خدا بچاؤ پتہ ناکام ٹھرا ہے تو ازدواجی رشتہ ہونے کا دعوی داغ دیا گیا ہے۔
طلاق یقینا بہت برا فعل ہے۔ اہل دانش تو الگ رہے‘ مذاہب نے بھی اس کی آخری حد تک ممانعت کی ہے۔ طلاق کے نتیجہ میں سماجی سطع پر خرابی آتی ہے۔ دو برادریوں میں دشمنی چل نکلتی ہے۔ اس طلاق دشمنی کے نتیجہ میں آتے کل کو کوئ بھی خطرناک صورتحال پیش آ سکتی ہے۔ بات محدود نہیں رہتی۔ بےگناہ‘ غیر متعلق اور بعض اوقات صلع کار بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ پھر بجھاءے نہ بنے والی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں طلاق کا آپشن موجود ہی نہیں۔ امریکہ کا یہ بیان پاک امریکہ دوستی کے اٹوٹ ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔ یہی نہیں یہ اس کی سماج اور مذہب دوستی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کمبل سے چھٹکارے کی کوشش کرو گے تو بھی کمبل خلاصی نہیں کرے گا۔ اس کمبل کی گرمایش اتنی ہے کہ اس کے بغیر بن نہ پاءے گی۔ امریکی چوری کا سواد اور چسکا ہی ایسا ہے کہ کم بخت لگی منہ سے چھٹتی نہیں۔ میں نے یہ تیر ہوا میں نہیں چلایا۔ اس کے بہ ہدف ہونے کا ثبوت کیمرون کا یہ ٹوٹکا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان نہیں چاہتے کہ امریکی ان کے ملک سے واپس جاءیں۔
دنیا کا کوئ بھی اولاد والا طلاق کی حمایت نہیں کرے گا۔ یہاں یہ واضح نہیں کون کس کو طلاق دے گا۔ ہمارے ہاں زیادہ تر مرد‘ عورت کو طلاق دیتا ہے۔ کیمرون کا بیان واضح کرتا ہے کہ پاکستانی سیاست دان امریکہ کو طلاق نہیں دینا چاہتے۔ گویا امریکہ کو ان کی ایسی کوئ خاص ضرورت ہی نہیں بلکہ ان کو چولہا چونکا چلانے کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے۔ یہاں کی سماجی روایت کے تناظر میں دیکھا جاءے تو طلاق کا حق پاکستان کے پاس ہے۔ مرد چاہے نامرد ہو‘ اسے عورت نہیں کہا جا سکتا۔ سیاست دانوں کی یہ غنڈہ نوازی ہے کہ جھوٹ موٹھ سہی‘ ہم پاکستانی مردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ طلاق کے معاملے کا فقط ایک پہلو ہے۔ مغرب میں عورتیں مردوں کو طلاق دیتی ہیں۔اس حوالہ سے طلاق دینے کا حق امریکہ کے پاس چلا جاتا ہے۔ طلاق کا حق ان کے پاس ہو یا ان کے پاس‘ ہم پاکستانی مرد ضرور قرار پاتے ہیں اور یہ ہمارے لیے کمال فخر کی بات ہے کہ ہم نام کے سہی‘ مرد ہیں۔
اس حوالہ سے بات نہیں کروں گا کہ زندگی پر حکومت عورت کرتی ہے۔ مرد زبانی کلامی دبکاڑے اور بڑکیں مارتا ہے۔ لیکن بیگم کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔ جہانگیر کے سارے فیصلے‘ نور جہان کے فیصلے ہیں۔ مرد جو باہر ناسیں پھلاتا ہے لیکن گھر میں صرف اور صرف بطور پانڈی داخل ہوتا ہے۔ کسی معاملہ میں بیگم کی سفارش آ جانے کے بعد اپنا طرز تکلم ہی بدل لیتا ہے۔ جو بھی سہی مرد‘ مرد ہوتا ہے۔ اس کی انا اور سطع بلند ہوتی ہے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں اس معاملے پر گفتگو نہیں کروں گا۔ طلاق کا نقطہ اس امر کی کھلی وضاحت ہے کہ ہم مرد ہیں۔ کیا ہوا جو مردانہ قوت میں ضعف آ گیا ہے۔ یہ ضعف پیدایشی نہیں اس لیے قابل علاج ہے۔ آج ان گنت دواخانے موجود ہیں لہذا عین غین معالجہ ممکن ہے۔ اس میں ایسی گھبرانے یا پریشان ہونے والی کوئ بات ہی نہیں۔
معاملے کا یہ پہلو ذرا پیچیدہ اور گرہ خور ہے کہ آخر وچارے امریکیوں پر یہ دھونس کاری کیوں؟؟؟ پاکستانی سیاست دان اتنے لچڑ کیوں ہو گے ہیں؟!
پشاور یا اس سے پار کے مرد اس ضمن میں ضد کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کا پشاوری ذوق عجیب لگتا ہے۔ اس علاقہ کے لوگ بھی سیاسی نشتوں میں ہوتے ہیں لیکن تعدادی حوالہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ جمہوریت کو تعداد سے مطلب ہوتا ہے۔ مردانہ طاقت چاہے کسی بھی سطع کی ہو۔ عین ممکن ہے سیاسی ہیلو ہاءے میں وہ ڈومینٹ ہوں اور شاید اسی حوالہ سے مردوں کا زنانہ شوق مردانہ میں بدل گیا ہو۔
دینی اور سیاسی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائ انسانی نہیں‘ امریکی بنیادوں پر بحال ہوئ ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں پیش نظر رہنی چاہیں:
ا۔ امریکہ انسانی حقوق کا ٹھکیدار ہے۔ اگر امریکہ کے حوالے سے بحال ہوئ ہے تو اسے انسانی بنیادوں پر لیا جانا چاہیے۔
ب۔ بیگمانہ حکم عدولی کل کلیان کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ کل کلیان طلاق کا دروازہ کھول سکتی ہے جبکہ پاکستان سے تعلقات کے ضمن میں طلاق کا آپشن موجود ہی نہیں۔ جب آپشن ٹھپ ہے تو نیٹو سپلائ کا امریکی بنیادوں پر بحال ہونا غلط اور غیر ضروری نہیں۔
ایک طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے فضائ راستے سےنیٹو کو رسد کی سپلائ روز اول سے جاری ہے۔ ہم سخی لوگ ہیں اور سخیوں کے ڈیرے سے دوست دشمن بلا تخصیص فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرا ہمارے ہاں کا اصول رہا کہ کہو کچھ کرو کچھ۔ جب کہا جاتا ہے کہ فلاں کام نہیں ہو گا تو سمجھ لو وہ کام ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے۔ ہم کسی بھی سطع کی صفائ دے سکتے ہیں لیکن پرنالہ اپنی جگہ پر رکھتے ہیں۔ کسی کو بھوک سے مرتے دیکھنا کوئ صحت مند بات نہں۔ ہم اپنے لوگوں کو بھوک پیاس اور اندھیروں کی موت مار سکتے ہیں لیکن سفید رانوں والوں کو بھوکا مرتے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ بھی کہ معاملہ سفید رانوں تک محدود نہیں ہماری محبوبہ کے پاس ابراہیم لنکن والے نوٹ بھی ہوتے ہیں۔ نوٹ دیکھتے ہی ہمارا موجی موڈ بن جاتا ہے۔ غیرت اصول اور کہا سنا اپنی جگہ‘ نوٹ اپنی جگہ۔
طلاق دینے کی کوئ تو وجہ ہو نی چاہیے۔ امریکہ سے تعلقات آخر کیوں ختم یا خراب کءے جاءیں۔ بچارے سیاسی لوگ پلے سے خرچہ کرکے ممبر بنتے ہیں۔ کیا عوام ان کی ضرورتوں کے مطابق کما کر دیتے ہیں‘ بالکل نہیں۔ امریکہ نوٹ وکھاتا اور چکھاتا ہے اس لیے موڈ کا نہ بننا احمقانہ سی بات ہے۔ یہ لوگ امریکہ کے کام الله واسطے نہیں کرتے۔ اگر پاکستانی عوام کو خود مختاری حاصل کرنے کا اتنا ہی شونق ہے تو امریکہ برابر نوٹ کماءیں وکھاءیں اور ان کی تلی ترائ کریں۔ اگر تلی ترائ نہیں کر سکتے تو چونچ بند رکھیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ طلاق دینے کی صورت میں ناصرف جہیز واپس کرنا پڑے گا بلکہ حق مہر بھی دینا پڑے گا۔ کون دے گا؟!
عوام کے پاس تو دو وقت کی روٹی کھانے کو نہیں حق مہر کہاں سے آءے گا۔ جہیز جو کھایا پیا جا چکا ہے کدھر سے آءے گا۔
امریکہ کو طلاق دینے کا فیصلہ کوئ ون مین گیم نہیں ہے۔ سابق سفیر کا کہنا ہے کہ جب تک پارلیمنٹ فیصلہ نہیں کرتی امریکہ سے تعلقات منجمد نہیں کر سکتے۔ گویا امریکہ کو طلاق دینے کا حق عوام کے پاس نہیں ہے۔ عوام کو اپنی حد میں رہنا چاہیے۔ عوام لاڈلی بھی نہیں ہے جو کھیلن کو چاند مانگ رہی ہے دوسرا چاند ملوکہ جگہ ہے۔ چاند پر صرف اور صرف قبضہ گروپ کا حق ہے۔
ہمارے پڑوس میں ایک جوڑا اقامت رکھتا ہے۔ ان کے تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ بڑے ہی پیارے پیارے بچے ہیں۔ بد قسمتی سے مرد جوا کھیلتا ہے اور نشہ بھی کرتا ہے۔ عورت محنت مشقت کرکے ان سب کا پیٹ بھر تی ہے۔تھکی ماندی جب گھر آتی ہے تو اس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ ایسے میں کوئ چوں بھی کرتا ہے۔ زبانی اور عملی طور خوب لترول کرتی ہے۔ مرد چوں بھی نہیں کرتا۔ چوں کرنے کی اس کے پس گنجاءش ہی نہیں۔
الله نے مرد کو کنبہ کا کفیل بنایا ہے۔ اگر عورت کام کرتی ہے تو یہ مرد کے ساتھ تعاون ہے ورنہ وہ کفالت کی ذمہ دار نہیں۔ خرچ اٹھانے اور تعاون کرنے والے کا ہاتھ اوپر رہتا ہے۔ اس حوالہ سے اسے بزتی کرنے کا بھی پورا حق حاصل ہے۔
امریکہ ہماری کفالت کرتا ہے۔ سارے حق حقوق پورے کر رہا ہے لہذا بزتی کرنے کا بھی اصولی طور پر اسے حق حاصل ہے۔ ہم اس چمکیلی اور نخریلی محوبہ کو طلاق دینا بھی چاہیں تو طلاق نہیں دے سکتے۔ جو ڈالر دیتا ہے اصول اور قانون بھی اسی کا چلتا ہے۔ امریکی عورتیں طلاق دیتی ہیں۔ ہم اس وقت تک امریکہ کی غلامی میں رہیں گے جب تک وہ ہمیں طلاق نہیں دے دیتا۔ ویسے ہماری خیر اسی میں ہے کہ ہم طلاق کا نام بھی زبان پر نہ لاءیں کیونکہ اس نے جس کو بھی طلاق دی ہے اسے لنڈا بچا ہی نہیں کیا اسے لولہ لنگڑا بھی کیا ہے۔
Tags:
© 2025 Created by John Santiago. Powered by