High-Tech, High-Touch For Your Higher Education
“وزیر برقیات کے اعلان کے باوجود مختلف شہروں میںلوڈشیڈنگ”
یہ خبر میری اس تحریر کے بعد شاءع ہوئ جس میں‘ میں نے کہا تھا کہ کہنا اور کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔ اس تحریر کے باوجود اس خبر کا شاءع ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ خبر نویس اس حقیقت سے بےخبر ہے یا پھر وہ پرتھوی پر بسیرا نہیں رکھتا اور سہانے خوابوں کے دیس کا اقامتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تک میری ناچیز تحریر رسائ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہو۔ یا پھر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ جو بھی ہے صحیح نہیں ہے۔ دوبارہ سے کوشش کرتا ہوں شاءد اب کہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤں۔
کہنا اور کرنا اپنی حیثیت میں دو الگ چیزیں ہیں۔ ان کے مابین لامحدود فاصلے ہیں۔ بذات خود بجلی دیکھنے میں ایک ہو کر بھی ایک نہیں۔ متعلقہ پواءنٹ تک پہنچنے کے لیے دو تاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ٹھنڈی تار دوسری گرم تار۔ دونوں تاروں کےالگ الگ رہنے میں ہی عافیت اور سلامتی ہوتی ہے۔ ہر سوءچ میں ان دونوں کے لیے الگ الگ پواءنٹ ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں تاریں باہمی اختلاط کر لیں تو بہت بڑا کھڑاک ہو سکتا ہے۔ اس ٹھاہ کے نتیجہ میں جان بلکہ جانیں جا سکتی ہیں۔ بالکل اسی طرح کہنا اور کرنا گلے مل جاءیں تو مالی نقصان وٹ پر ہوتا ہے۔ نقصان جانی ہو یا مالی‘ نقصان ہی ہوتا ہے اور نقصان کی کسی بھی سطع پر حمایت نہیں کی جا سکتی۔
سکول کالج یہاں تک کہ یونیورسٹی میں کتابی تعلیم دی جاتی ہے۔ کامیاب طالب علم کو متعلقہ علم کی سند یا ڈگری دی اتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈگری ہولڈر اس علم کی کامل جانکاری حاصل کر چکا ہے۔ اس سند یا ڈگری کے باوجود ڈگری یافتہ عملی طور پر صفر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عملی تجربہ رکھنے والا ڈگری یافتہ سے کرنے میں کمال کے درجے پر فاءز ہوتا ہے حالانکہ ڈگری یافتہ کرنے سے متعلق باتیں بار بار پڑھ بلکہ توتے سے بڑھ کر رٹ چکا ہوتا ہے۔ دونوں کے نام الگ سے ہوتے ہیں۔
کہنے کو تھیوری جب کہ کرنے کو پریکٹیکل کا نام دیا جاتا ہے اور یہ ایک دوسرے سے قطعی طور الگ ہیں۔ یہ درست سہی پڑھے کو عملی آزمایا جاتا ہے۔ گویا پڑھنا پہلے اور آزمانا بعد میں ہے۔ میں کہتا ہوں کرنا پہلے ہے اور کہنا یا آزمایا بعد میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک ان پڑھ آدمی بڑے کمال کے کام سر انجام دے رہا ہے۔ نہیں یقین آتا تو بلال گنج میں جا کر دیکھ لیں۔ شکاگو یونیورسٹی کا ایک ساءنس کا پروفیسر وہ کام نہیں کر سکتا جو کام بلال گنج کا ان پڑھ خرادیا دے سرانجام سکتا ہے۔ اسے کہیں یہ ہے ایف سولہ ذرا اس سے بہتر بنا دو‘ بنا دے۔ ڈالرز میں ملنے والے سوفٹ ویءر یہاں بازار سے ان کی سی ڈی بیس رویے میں مل جاتی ہے۔ ہے نا کرنا اور کہنا ایک دوسے سے الگ تر؟!
جو کرتے ہیں وہ بولتے نہیں۔ جو بولتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ اس طرح دوہرا یعنی کرنا اور کہنا بوجھ بن کر سر پر آ جاتا ہے۔ کوئ بھی دوہرا بوجھ اٹھا نہیں سکتا۔ کیا‘ بقلم خود بولتا ہے کہ میں ہوں کیا ہوا۔ غالبا یہ شعر بھیکا کا ہے:
بھیکا بات ہے کہن کی کہن سنن میں ناں جو جانے سو کہے نہ کہے سو جانے ناں
کہہ کر کیا تو کیا کیا۔ کیا وہی اچھا ہے جو کہا نہ جاءے۔ کرکے کہنا تو احسان جتانے والی بات ہے۔ احسان جتانا سے بڑھ کر توہین آمیز بات ہی نہیں۔ ہمارے لیڈر اتنے بھی گءے گزرے نہیں ہیں جو احسان جتاءیں۔ اسی بنیاد پر ہی وہ صرف کہتے ہیں‘ کرتے نہیں۔ وہ خوب خوب جانتے ہیں کہ کرنے کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے نزدیک کیے کی خبر دوسرے ہاتھ تک کو نہیں ہونی چاہیے۔ جو وہ کرتے ہیں لوگوں کو خبر تک نہیں ہو پاتی۔ جب لوگوں کو خبر ہوتی ہے وقت بہت آگے نکل گیا ہوتا ہے۔
کوئ بےبابائ کام کسی بڑی سفارش کے ساتھ جہاں کہیں نازل ہوتا ہے اس کی زبانی کلامی سہی‘ پذیرائ تو ہوتی ہے۔ اس کے ہونے کی یقین دہانی بھی کرائ جاتی ہے۔ امید بلکہ یقین کے چراغ بھی جلاءے جاتے ہیں۔ بعض اوقات لڈو بھی بانٹے جاتے ہیں۔ بےبابائ ہونے کی پاداش میں وہ کام نہیں ہو پاتا۔ اس مقام پر ناراض ہونا یا مایوس ہونا نہیں بنتا کیونکہ کرنا اور کہنا دو الگ باتیں ہیں۔
ایم این ایز یا ایم پی ایز یا منسٹرز لوگوں کی درخواستوں پر سفارشی کلمات لکھتے ہیں۔ یہاں وہ دونوں فریقوں کی درخواستوں پر سفارشی کلمات ایک ہی طرح سے ثبت کرتے ہیں۔ وہ تو دیالو اور کرپالو مخلوق ہوتے ہیں۔ وہ کسی کو کیسے مایوس کر سکتے ہیں۔ اس حوالہ سے کسی کا کام ہو یا نہ ہو اس سے انھیں کوئ مطلب نہیں ہوتا کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ سفاش اور کام کا سر انجام پانا دو الگ سے باتیں ہیں۔ سفاش اور کام کا ہونا اختلاط پذیر نہیں ہونے والے ۔ ان کی الگ الگ اہمیت حیثیت اور ضرورت ہے۔
ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد اپنی اپنی روٹی پکاتے ہیں۔ وہ سگے بھائ ہوتے ہیں۔ روٹئ سالن ایک رنگ روپ رکھتا ہے۔ ساتھ نبھانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہوتا ہے۔ سگا ہونا یا وعدے میں بندھے ہونا یا روٹی کا رنگ روپ ایک ہونا اپنی جگہ لیکن نبھانا دو الگ باتیں ہیں۔ انھیں ایک دوسرے سے نتھی نہیں کیا جا سکتا اور ناہی کیا جانا حقیقت سے تعلق رکھتا ہے۔
پنجاب جو سب سے بڑا صوبہ ہے کی منشی شاہی سب سے زیادہ شریف‘ تحمل مزاج‘ بردبار اور زیرو رفتار ہے نہ یہ کچھ کہتی نہ کرتی ہے۔ یہ ہونے کے ہر کام کی راہ میں دیوار بن جاتی ہے۔ چونکہ قلم، اٹکل اور داؤ و پیچ اس کی زنبیل میں پناہ گزیں ہوتے ہیں اس لیے ہوتے بھی نہیں ہوتے۔ اس کی تحمل مزاجی اور زیرو رفتاری ہی وہ بڑا کارنامہ ہے کہ ہم روزاول سے بھی بہت قدم پیچھے کھڑے بھوک پیاس اور موت کی ہولی بڑی بےبسی اور بےکسی سے دیکھ رہے ہیں۔ یوں لگتا دیکھنا ہمارا مقصد حیات ہے۔
وزیر عوامی لوگ ہوتے ہیں اس لیے عوام کی بہبود ان کے پیش نظر رہتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے لوڈ شیڈنگ ختم کرکے بجلی کے بل لوگوں کی جیب سے تجاوز کر جاءیں اور پھرلوگ لوڈ شیڈنگ کرنے کے لیے سڑکوں پر آ کر ذلت و خواری کا منہ دیکھیں۔ وہ بجلی کے بل اور لوڈشیڈنگ کی جدائ کو عوامی بہبود کے برعکس سمجھتے ہیں۔
مفروضوں میں زندگی کرنے کا عہد ہے۔ عین ممکن ہے یہ اخباری خبر ہاوسز سے متعلق ہو جہاں اتفاقا کسی فنی خرابی کے سبب بجلی دو چار لمحوں کے لیے کبھی کبھار چلی جاتی ہے۔ بڑے لوگوں کے بڑے کام۔ وہ مخاطب چھوٹے لوگوں سے ہوتے ہیں لیکن وعدے بڑے لوگوں کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔ بلند سطع پر کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں ٹھنڈی اور تتی تاروں کا رولا باقی نہیں رہتا۔ وہاں کرنا اور ہونا دو نہیں رہتے۔ سچی درویشی یہی ہے کہ میں تو میں مدغم ہو کر میں بن جاتی ہے اورپھر زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں رہتی۔
Tags:
© 2025 Created by John Santiago. Powered by