High-Tech, High-Touch For Your Higher Education
جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں
پشاور ہائ کورٹ کا یہ کہنا کہ اگر ہم سچ بولنے لگیں تو ہمارے اسی فیصد مساءل حل ہو جاہیں گے‘ پشاور ہائ کورٹ کے یہ الفاظ آب زم زم سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ سچ سے بڑی کوئ حقیقت نہیں اور ناہی اس سے بڑھ کر کوئ طاقت ہے۔ سچ ظلم زیادتی ناانصافی بلکہ ہر خرابی کی راہ میں مونگے کی چٹان ہے۔ یہ کمزور کو کمزور نہیں رہنے دیتا۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے‘ اس کے باوجود ہر شخص اس سے دور بھاگتا ہے۔ شاید ہی کوئ ہو گا جو اس کی برکات کا قاءل نہ ہو گا یا اس کی طاقت سے انکار کرتا ہو گا بلکہ اپنے سوا دوسروں کو درس نہ دیتا ہو گا۔ سچ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کھ اسے لاکھ پردوں میں رکھو‘ سامنے آنے سے باز نہیں رہتا۔ اس طرح بنا بنایا کھیل بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
سچ یقینا پیار کرنے کے لاءق چیز ہے۔ لوگ اس سے بےحد پیار کرتے ہیں۔ اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سچ سننا انھیں خوش آتا ہے۔ جو بھی ان کے سامنے جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیتا ہے اسے کڑی سے کڑی سزا دینے پر اتر آتے ہیں۔ جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لینے والا بچ کر جاءے گا کہاں۔ ان کی نگاہ بال کی کھال اتار لیتی ہے۔ وہ اس کو محدود نہیں رکھتے تاہم اقتصادیات سے جڑا جھوٹ انھیں موت کے گھاٹ اتار دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ کسی اور کا دینا ایک روپیے کا ہو یا لاکھ روپیے کا‘ ان کےلیے اس میں ایک اکنی کی ہیر پھیر بھی لاکھ کی حیثیت رکھتی ہے۔
دینے کا معاملہ اس پیمانے سے قطعی برعکس ہوتا ہے۔ اس ضمن میں سچ انھیں زہر لگتا ہے۔ ان کے سماجی معاملات بھی سچ کے پکے دشمن ہوتے ہیں۔ سماجی معاملہ ہو یا اقتصادی‘ جھوٹ اور منافقت کی جےء جےء کار رہتی ہے۔ منافقت‘ جھوٹ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ امیدوار ممبر جب کسی کے پاس آتا ہے تو منہ پر جھوٹ بولتا ہے کہ میں شروع سے آپ کا خدمت گار رہا ہوں ۔ جب کہ عید کے روز بھی اس سے مسجد میں ملاقات نہیں ہوئ ہوتی۔ اگلی صفوں میں بیٹھنے والوں کی نگاہ میں پیچھے بیٹھے لوگ روڑا کوڑا ہوتے ہیں۔ پرانے اور بوسیدہ لباس والے دکھائ کب دیتے ہیں۔ یہ فطری سی بات ہے کہ آسمان اور زمین کا ملن ممکن ہی نہیں۔ یہ اس لیے کہا ہے کہ الیکشن امراء کا کھیل ہو کر رہ گیا ہے۔ گریب تو موری ممبری کا الیکشن تک نہیں لڑ سکتا۔ ہاں گریب رات کو امیدوار ممبر کے ڈیرے سے پیٹ پوجا کے لالچ میں لوگوں سےلڑ جھگڑ سکتا ہے۔
امیدوارممبر جس طرح اپنے خادم ہونے کا جھوٹ بولتا ہے ووٹر بھی نہلے پر دہلا مارتا ہے۔ وہ جوابا کہتا ہے کہ جناب ہمیشہ آپ کا ساتھ دتیے آءے ہیں اب بھلا آپ کو کس طر ح چھوڑیں گے حالانکہ اس نے کبھی بھی اس کا ساتھ نہیں دیا ہوتا۔ عملی طور پر اس کا سخت مخالف رہا ہوتا ہے یا جھڑنے والے کے ڈبے میں اس کے ووٹ نے بسیرا کیا ہوتا ہے۔
کوتوالی کی بات چھوڑیں وہاں تو بڑے بڑےعین غین اور شریف باٹی ٹیک جاتے ہیں۔ وہ وہاں‘ وہ وہ جرم تسلیم کر لیتے ہیں جن کے کرنے کی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے۔ میں یہاں عدالت کے حوالہ سے بات کرنے جا رہا ہوں۔ عدالت میں چور کو بھی وکیل کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ یہ اس کا اصولی حق ہوتا ہے۔ چور کا وکیل وہ وہ دلاءل پیش کرتا ہے کہ چور کو یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ چور نہیں ہے۔ اس نے چوری کی ہی نہیں بلکہ اس پر چوری کا جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے جب کہ وکیل کو پورا پورا یقین ہوتا ہے کہ چوری اس کے موکل نے کی ہے۔ اس کے باوجود وہ چور کا مقدمہ لڑتا ہے اور اسےبچانے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے۔ یہ اس کا پیشہ ہے۔ کامیابی کی صورت میں وہ اچھا وکیل قرار پاتا ہے۔ ہارنے کی صورت میں کوئ چور اس کے قریب سے بھی گزرنے کی حماقت نہیں کرتا۔ اگر کوئ چور اس کے پاس نہیں آءے گا تو وہ بھوکا مر جاءے گا۔ گویا علم اور داؤوپیچ رکھنے والا پیٹ سے سوچے گا تو سچ بولنے کی بھلا ایک عام آدمی کس طرح حماقت کرے گا۔ پیٹ ہی جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کرتا ہے۔
پیٹ ہی سب سے بڑا سچ ٹھرتا ہے۔ کسی کا حق ڈوب رہا ہے‘ اس جانب نظر کیسے جا سکتی ہے۔ مضروب اپنے جوگا نہیں ہوتا وہ ہرے نیلے نوٹ کس طرح وکھا سکتا ہے۔ سچا ہو کر بھی وہ جھوٹوں کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔
ہمارے تمام مساءل کا حل یقینا سچ بولنے میں ہے لیکن خالی پیٹ درویش لوگ ہی سچ بول سکتے ہیں۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ سچ بولنے والےجان سے گءے ہیں۔ پیٹ کے غلام روز اؤل سےعزت بچانے کے لیے سارا دن بےعزتی کرواتے ہیں۔ پیٹ یقینا تکنیکی اور شکمی مجبوری ہے۔ پیٹ کو کسی بھی سطع پر خانہ نمبر دو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ روٹی کپڑا اور مکان یا پاکستان کو جنت نظیر بنا دینے کے وعدے تو ہوتے رہے ہیں۔ جنت نظیر بنانا تو بہت دور کی بات ہے پاکستان کو پاکستان تک نہیں بنایا جا سکا۔
پاکستان میں بجلی روٹی کا پہلا اور آخری ذریعہ ہو کر رہ گئ ہے۔ وزیر برقیات نے بند نہ ہونے کا وعدہ کیا لیکن لوڈ شیڈنگ کے معمولات میں رائ بھر فرق نہیں آیا۔ مزدور گھر سے تو مزدوری پر آ گیا ہوتا ہے لیکن بجلی نہ ہونے کے کارن فارغ بیٹھا ہوتا ہے۔ ماں دروازے پر آنکھیں رکھ کر بیٹھی ہوتی ہے کہ بیٹا آءے گا۔ مزدوری لاءے گا تو ہی اس کی دوا آ سکے گی۔ بیوی کو چولہا گرم کرنے کی فکر ہوتی۔ چھوٹا بچہ دودھ آنے کی امید لگا کر بیٹھا ہوتا ہے لیکن بیٹا باپ خاوند خالی ھاتھ واپس آ جاتا۔ ان میں سے کسی کا قصور نہیں ہوتا۔ سب اپنی اپنی جگہ پر حق بجانب ہوتے ہیں۔
لیکن لوڈ شیڈنگ کے معمولات میں رائ بھر فرق نہیں آیا۔ مزدور گھر سے تو مزدوری پر آ گیا ہوتا ہے لیکن بجلی نہ ہونے کے کارن فارغ بیٹھا ہوتا ہے۔ ماں دروازے پر آنکھیں رکھ کر بیٹھی ہوتی ہے کہ بیٹا آءے گا۔ مزدوری لاءے گا تو ہی اس کی دوا آ سکے گی۔ بیوی کو چولہا گرم کرنے کی فکر ہوتی۔ چھوٹا بچہ دودھ آنے کی امید لگا کر بیٹھا ہوتا ہے لیکن بیٹا باپ خاوند خالی ھاتھ واپس آ جاتا۔ ان میں سے کسی کا قصور نہیں ہوتا۔ سب اپنی اپنی جگہ پر حق بجانب ہوتے ہیں۔
وکیل اپنی جگہ پر ٹھیک ہے کہ چور کی وکالت نہیں کرے گا تو کھاءے گا کہاں سے۔ بابو اپنی جگہ پر سچا ہے کہ حق ناحق کا عوضانہ نہیں وصولے گا تو مرغ اور مچھلی کا سامان کیسے اور کیوں کر ہو سکے گا۔ جب وعدے پورے نہیں ہونے‘ مظلوم کو ظالم ٹھرایا جانا ہے‘ انصاف دوہرا ہونا یا کروانا ہے‘ چور کو بری کروانا ہے تو جھوٹ کو قانونی حیثیت دے دی جاءے‘ کم از کم منافقت سے تو خلاصی مل جاءے گی۔ اصلی آدمی دیکھنے کو مل جاءے گا۔ آج اصلی آدمی کو دیکنھے کو آنکھیں ترس گئ ہیں۔ جنی کوئ غلط اقدام نہیں ہو گا۔ جس کو بےوسیلہ اوربے بابائ ہونے کی وجہ سے قتل کیتا کرایا مل جانا مل جانا ہے‘اس کی داد رسی لایعنی اور ہر طرح کی معنویت سے باہر کی چیز ہے۔ ایسے حالات میں جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں‘ انسانی مساوات قاءم کرنے کے کے مترادف ہے۔۔ اگر بعض کو جرم کی سزا سے بالاتر قرار دینے کی سعی کرنا ہے تو اوروں کو یہ حق دینا کس اصول کے تحت غلط ہے؟!
Tags:
© 2025 Created by John Santiago. Powered by