High-Tech, High-Touch For Your Higher Education
زندگی کے پہیے کی درستی کرتے جان دینا انبیاء کی سنت ہے
بلور ذاتی طور پر کیسے ہیں‘ ان پر عدالت میں کتنے اور کس نوعیت کے کیس ہیں میں نہیں جانتا اور میرے موضوع کا اس سے کوئ تعلق نہیں۔ ان کا بیان سیاسی ہے مجھے اس کی خبر نہیں کیونکہ دلوں کے حال صرف اور صرف الله ہی جانتا ہے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ان کا بیان ایک سچے اور کھرے مسلمان کا ہے یہاں تک کہ ان کے مطابق وہ ناموس رسالت کے لیے جان سے بھی گزرنے کے لیے تیار ہے۔ مجھے تو بہر طور ان کے ہر لفظ میں آقا کریم کی سچی محبت نظر آتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سیاست وزرات امارت کی اس ذیل میں کی کوئ پرواہ نہیں۔
جن دلوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے ان کا کیا کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بیان سے حکومتی حلقوں کو پوٹیاں لگ گئ ہیں اور ان کے بیان کو ان کا ذاتی بیان قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا عجیب لوجک ہے۔ کیا وہ موجودہ سرکار سے متعلق نہیں۔ سرکاری ذمہ دار عہدے دار کی کوئ بات ذاتی نہیں ہوتی اسے سرکاری ہی سمجھا جاتا ہے اور سمجھا بھی جانا چاہیے۔
امام کعبہ فلم بنانے والے کو دوسرا سلمان رشدی قرار دے چکے ہیں۔ سلمان رشدی کے لی دیا گیا فتوی ریکارڈ میں ہے۔ اس حوالہ وفاقی وزیر ریلوے کا بیان کس طرح غلط ہے۔ انھوں عین شرع کے مطابق کام کیا ہے۔
جعمہ کے روز سرکاری چھٹی دی گئ تاکہ لوگ مغربی قیادت کے اس فعل کی اپنے اپنے انداز سے مذمت کر سکیں اور سراپا احتجاج کا رستہ اختیار کریں۔
کس احتجاج کس طرح ہوا یہ باالکل الگ سے بحث ہے۔
وہ چھٹی کا اعلان محض ٹوپی ڈرامہ اور سیاست چمکانے کا ذریعہ سمجھا گیا اور اپنی حکمت کے وزیر کی کہی بات کو غیر سرکاری کہا جا رہا ہے۔
الله کا ڈر اور آقا کریم کی محبت پر غیر الله کا ڈر غالب آ گیا ہے۔ زمینی خدا عزت نہیں دے سکتے ہاں ذلت کی دلدل میں ضرور دھکیل سکتے ہیں۔ رزق بھی ان کے ہاتھ میں نہیں۔ رازق صرف اور صرف الله کی ذات گرامی ہے۔ ماں کے پیٹ میں زمینی خدا رزق بھجواتے ہیں۔ پیدایش کے فورا بعد دودھ اور شہد کی دو نہریں جاری کرنے وا لا صرف اور صرف الله ہی ہے۔ جب عزت ذلت رزق الله کے ہاتھ میں ہے تو ڈنڈی مار زمینی خدا کی خدائ کو ماننا کیا خود اپنے ساتھ ظلم نہیں ہے۔
مسلمانی کے لیے الله کو الله ماننا اور آقا کریم کی رسا لت کو دل و جان سے تسلیم کرنا لازم ہے تو یہ کس طرح کی مسلمانی ہے جو ان جعلی خداؤں کی گھرکی سے لوٹا ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹ رہا۔ یہ لوٹا ہولڈر شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے موجودہ پوزیشن کے ساتھ قاءم داءم رہیں گے۔ کوئ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ کوئ آج تو کوئ کل یہاں سے جانے والا ہے۔ ٹیپو نے کہا تھا شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندی سے بہتر ہے۔ وہ آج بھی زندہ ہے اور کل بھی دلوں میں زندہ رہے گا۔ بزدل اور پیٹ کا بندہ زندہ ہو کر بھی زندہ نہیں ہوتا۔ بلور صاحب دلوں کے صاحب بن کر ابھرے ہیں اور یہی زمین کی سرخروئ ہے۔
مغرب کی قیادت انسانی حقوق اور آزادی کا رولا ڈالتی رہتی ہے۔ یہ کیسی انسانی حقوق کی پاسداری ہے جو کرڑوں انسانوں کو ڈسٹرب کرتی ہے۔ ان کے جذبات مجروع کرتی ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے جو اوروں کے نظریات اور جذبات کا قتل کرتی ہے۔ ڈسٹرب کرنے اور امن وسکون برباد کرنے والے پر کوئ کرفت نہیں۔ اس کے خلاف بات کرنے والا مجرم ہے۔ اگر اسے کھلی چھٹی دیے رکھنا ہے تو مذمتی بیان داغنے کی کیا ضرورت ہے۔
برطانیہ کا کہنا ہے انتہا پسند کو بردشت نہیں کریں گے۔ انتہا پسندی کی یہ دہری تعریف سمجھ سے بالاتر ہے۔ زمین کا امن و سکون برباد کرنے والا انتہا پسند نہیں اور وہ ہر قسم کی تعزیر سے بالاتر ہے۔ گویا تھپڑ مارنے والا درست ہے جوابی کاروائ کرنے والا مجرم یعنی انتہا پسند ہے۔ آتی نسلیں اس دہری تعریف کو لعنتی قرار دیں گی۔ ڈراون حملوں سے لوگوں سے زندگیاں چھین لینے والا انتہا پسند نہیں۔ اس کے فعل بد کی مذمت کرنے والا انتہا پسند ہے۔
جب چور درستی اور گھر والا مجرم ٹھہرے گا تو زندگی کا پہیہ الٹا چلنے لگے گا۔ کچھ بھی درست نہیں رہے گا۔ انبیاء کرام ذندگی کے پہیے کی درستی کے لیے تشریف لاتے رہے۔ انھیں صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بہت سے شہید بھی ہوءے۔ گویا زندگی کے پہیے کی درستی کے کام کے حوالہ سے مرنا انبیاء کی سنت ہے۔ اگر آج پیٹھ دکھائ گئ تو حقیقی اتہا پسندوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ وہ اس سے بڑھ کر ایسی مذموم حرکتیں کریں گے۔ آج ہماری لیڈر شپ کو شیر بننا پڑے گا اور بلور صاحب کے بیان کو سرکاری بیان تسلیم کرنے میں کوئ عار نہیں سمجھنی چاہیے۔ ان کے باہر اقامت رکھنے والے بچوں کو کچھ نہیں ہو گا کیونکہ الله سے زیادہ حفاظت کرنے والا کوئ نہیں۔
اسی طرح ادھر پڑی قوم کی لوٹی اور اب ان کی رقوم کو خطرہ ہے۔ الله سے زیادہ دینے والا کون ہو سکتا ہے۔ اس کے دینے کے ان حد رستے ہیں۔ آقا کریم کی شان اور قومی عزت سے بڑھ کر دولت اور زندگی کیسے بالاتر ہو سکتی ہے۔ اصل مسلہ یہ ہے کہ وہ خود کو اس قوم کا سمجھیں وہ اپنا شمار مغربی دنیا میں کرتے ہیں۔
ن لیگ کی قیادت نے معاملے کو بین الا قومی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قابل تحسین فیصلہ ہے۔ اپنا نقطہ نظر تو پیش ہونا چاہیے۔ اس حوالہ سے مجرم کو انسانی حقوق کا قاتل تو قرار دینے کی سعی کی جا سکتی ہے۔ اس سے آءندہ اس قسم کی مذموم حرکات کی راہ میں دیوار کھڑی کی جا سکتی ہے۔
Tags:
© 2025 Created by John Santiago. Powered by