Freedom University

High-Tech, High-Touch For Your Higher Education

 

آزمایش کا رستہ باقی ہے

 

مجھ سے سوال کیا گیا ہے کہ آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ سے کوئ مریض بچا بھی ہے۔ بظاہر یہ ایک سوال ہے لیکن معنوی حوالہ سے یہ دو سوال ہیںِ

١۔ آپ کے معالجے سے کسی مریض کو شفا بھی ہوئ ہے یا نہیں۔

٢۔ کسی مریض کی جان بھی سلامت رہی یا اس نے قبرستان کی راہ لی ہے یعنی اپنے قدموں

واپس چل کر گھر بھی گیا یا نہیں۔

کوئ بھی نئ چیز

ایک بار مستری یا کاریگر کے پاس چلی جاتی ہے تو سمجھو اب اس کا آنا اور جانا لگا رہے گا۔ مستری یا کاریگر کی روٹی اشیاء کی مرمت سے جڑی ہوئ ہے۔ اشیاء مرمت کے لیے نہیں آءیں گی تو وہ بھوکا مر جاءے گا۔ اس لیے اشیاء کی خیر مانگنا یا منانا اس کی کاروباری سرشت میں داخل نہیں۔ وہ کوئ نہ کوئ پرزہ جو متاثر نہیں ہوتا کی چول ڈھیلی کر دیتا ہے اس طرح پندرہ بیس دن بعد اس کے پاس آنے جانے کا رستہ کھل جاتا ہے۔ اگر گاہک اس کے پاس نہیں جاتا کسی دوسرے مستری یا کاریگر کے پاس چلا جاتا ہے تو کوئ بات نہیں وہ پیٹی بھرا ہے۔ دوسرا اس کے گاہک بھی تو ادھر آتے رہتے ہیں۔ مستری یا کاریگر کے ساتھ اور بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ مثلا ولڈنگ کرنے والے کاریگر وغیرہ ایک چیز کی خرابی بہت سے لوگوں کے لیے رزق کے دروازے کھولتی ہے۔ گویا بگاڑ میں بہت سے لوگوں کے لیے خیر وبرکت ہے جبکہ بہتری سے فقط ایک گھرانے کا رشتہ اور تعلق واسطہ ہوتا ہے۔

دوسری عظیم مثال واپڈا والوں کی ہے۔ اگرچہ پورے ملک کی تاروں کا نظام عین غین ہے۔ کسی علاقہ سے تار ٹوٹنے کی شکایت آتی ہے تو معاملہ شکایت کے درج ہونے تک محدود و مجبور رہتا ہے۔ علاقہ کے لوگ چندہ جمع کرکے واپڈا والوں کے حضور پیش کرتے ہیں تب جا کر ان کی تشریف آوری ہوتی ہے۔ شکایت اس علاقہ کے لیے مستقل زمینی آفت جبکہ واپڈا کے اہل کاروں کے لیے مستقل ذرخیزی کا درجہ رکھتی ہے۔ تار کا جوڑ اس طرح لگاتے ہیں کہ پندرہ بیس دن بعد ان کی ضروت پڑ جاتی ہے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہتی کسی اور حصے کا جوڑ ڈھیلا کر دیتے ہیں۔ اس طرح اس علاقہ کے لوگوں کو چندہ گردی کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

کاریگر چیز کو مرنے نہیں دیتے یہی ان کا کمال اور روزگار ہے۔ آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ مریض قبر کی راہ لے گا۔ مریض کا مرنا ڈاکٹر کے پیٹ پر لات رسید ہونے کے مرادف ہے۔ کوئ بھی سیانا ڈاکٹر مریض کو مرنے نہیں دیتا ہاں آہستہ آہستہ مرے جیسی حالت ضرور کر دیتا ہے۔ آپ کسی ایک مرض کے حوالہ سے جاءیں گے تو پان سات بیماریاں تشخیص میں آجایں گی۔ اگر ذاتی ٹسٹ گاہ ہے تو اور بھی اچھا۔ کلنک کے باہر ذاتی دوا گاہ ہوتی ہے۔ ٹسٹ لکھوائ فیس ٹسٹ کروائ فیس دوا دلوائ فیس گویا ایک پنتھ سھ کاج۔ اگر ٹسٹ گاہ نہ ہو تو مخصوص ٹسٹ گاہ کا رستہ دکھایا جاتا ہے۔ کیوں‘ ان سے فیصد کا مک مکا ہوا ہوتا ہے۔ گویا مریض کی آنیاں جانیاں ہی کامیاب ڈاکڑ کی نشانیاں ہوتی ہیں۔

جوان مریض من و سلوی سے کسی طرح کم نہیں ہوتا۔ اس کے گھر والے خرچہ کرنے سے پرہیز نہیں کرتے۔ گھر والوں کے لیے بےکھیسہ بابا معنویت نہیں رکھتا۔ اس کی کھانسی اور جاہ پانی عذاب مفت ہوتا ہے۔ اس کا علاج علامتی اور محض نک رکھائ ہوتا ہے۔ مال دار بابا مال پر سانپ کے مترادف ہوتا ہے۔ مالدار بابے کی فراغت کے اس کے اپنے دل و جان سے خواہاں ہوتے ہیں۔ اس کے لیے بھاگ دوڑ بابے کے لیے دکھلاوا ہوتی ہے۔ بے گرہ بابے کے لیے کوشش دنیا والوں کا منہ بند کرنے کے لیے ہوتی ہے۔

ڈاکٹری ایک بزنس ہے اور بزنس میں کسی چیز کو غلط اور ہیرا پھیری کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ مال خرچ کرکے مال حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹری کی تعلیم مفت تو حاصل نہیں کی گئ ہوتی۔ اسی طرح ٹسٹ مشینوں اور ان کے کاریگروں کو ماہانہ دیا جاتا ہے۔ کلنک کے باہر بازار سے مہنگا میڈیکل سٹور مفت میں نہیں بنایا گیا ہوتا۔ دوسرا ہنر کے پیسے وصولے جاتے ہیں۔ ٹی وی میں معمولی نقص ہی کیوں نہ ہو کاریگر اپنے ہنر کی کھٹی کھاتا ہے۔ ڈاکڑ مریض کے گھر نائ تو نہیں بھیجتا۔ وہ خود اپنی مرضی اور ضرورت کے حوالہ سے از خود چل کر آتا ہے‘ نہ آءے۔ ڈاکٹر کے ہاں مریض کا آن جان نہ رہے تو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کا کیا فاءدہ۔ درج بالا حالات اور معروضات کے تحت مریض کی موت اور کامل صحت ڈاکٹر کے لیے کسی طرح سود مند نہیں۔ مریض کے نصیب میں مرض گھٹ گھٹ کر مرنا لکھ دیتا ہے۔ جس مریض کے متعلق یقین ہو جاءے کہ اب اور زندہ نہیں رہے گا کو دوا وغیرہ دے کر گھر کا رستہ نہیں دکھایا جاتا آخری لمحوں تک کے دام کھرے کرنے کے لیے روک لیا جاتا ہے۔ عہد حاضر کی مسیحائ کا تقاضا یہی ہے۔ آپ کے سوال کا جواب تشفی بخش نہ ہو تو آزمایش کا رستہ باقی ہے

۔

 

Views: 12

Reply to This

Badge

Loading…

Events

© 2025   Created by John Santiago.   Powered by

Badges  |  Report an Issue  |  Terms of Service