Freedom University

High-Tech, High-Touch For Your Higher Education

سیری تک جشن آزادی مبارک ہو

سیری تک جشن آزادی مبارک ہو

میں اس امر کا متعدد باراظہار کر چکا ہوں کہ برصغیر دنیا کا بہترین خطہء ارض ہے۔ یہاں کے وسنیک بڑے ہی محنتی اور ذہین ہیں۔ میدان کار زار میں بھی ناقابل یقین کارنامے سر انجام دیتے آءے ہیں۔ سکندر دنیا فتح کرنے چلا تھا لیکن راجہ پورس سے پالا پڑا تو اسے نانی یاد آ گءی۔ ٹیپو کا نام لے کر انگریز ماءیں اپنے بچوں کو ڈراتی تھیں۔

اہل قلم بھی بلا کے ذہین اور بے باک رہے ہیں۔ شاعر علامتوں اشاروں میں تلخ حقیقتوں کو کاغذ کے بدن پر اترتے آءے ہیں۔ پیٹو مورخ نے؛ اورنگ زیب جو برصغیر کو جہنم میںدھکیلنے کا موڈھی ہے‘ نبی کے قریب پنچا دیا ہے۔ رحمان بابا صاحب نے واضع الفاظ میں اس کی کرتوتوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نےبڑے ہی رومانوی الفاظ میں اپنے عہد کے کرب کو بیان کر دیا ہے۔ ذرا یہ شعرملاحظہ فرماءیں کتنا کرب پوشیدہ ہے۔

چشم قاتل تھی میری دشمن ہمیشہ‘ لیکن جیسی اب ہو گئ قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

ذہانت کی پذیرائ تو بڑی دور کی بات‘ ان کی ذہانت کو کبھی تسلیم تک نہیں کیا گیا بلکہ ذہانت کی تذلیل ہی کی گئ ہے۔ ہنر مندوں کے ہاتھ کاٹے گءے ہیں۔ بعض تو جان سے بھی گءے ہیں۔ اس کے برعکس کرسی قریب جھولی چکوں کو نوازا گیا ہے۔ یہی جھولی چک اپنی عیاری کے بل پر کرسی پر شب خون مارتے آءے ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ کر دیکھیں غداروں اور دھرتی کے نمک حراموں کے سبب بیرونی طالع آزماؤں کے سبب یہ دھرتی غیروں کی غلام رہی ہے۔ غیروں نے اس کےوساءل سےموجیں کی ہیں اور خوب پچرے اڑاءے ہیں اوراڑا رہے ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ یہ غدار اور دھرتی کے نمک حرام لوگوں کی ذہانت کا اسی طرح قیمہ کرتے رہیں گے۔ اس ذیل میں خدا کے خوف کی بات کرنا حماقت سے کم نہیں۔ خدا‘ خدا کا خوف کھاءیں؟ بادشاہ لوگوں کا شروع سے یہی طور اور وتیرا رہا ہے۔ دور کیا جانا ہے آج کے خدا نما بادشاہوں کو ہی دیکھ لیں کیا کر رہے ہیں۔ شخص ان کے لیے کیڑے مکوڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کی بھوک پیاس سے انہیں کوئ غرض نہیں۔ انھیں تو باتوں اور جھوٹے دعوں کے عوض جنتی اور مفتی کھانا مل رہا ہے۔ ان کی دلال افسر شاہی تو گلچرے اڑا رہی ہے۔ لوگ اندھیروں میں ہیں تو وہ کیا کریں ان کے ہاں تو چانن ہے۔

چودہ اگست ہر سال آتا ہے۔ سرکاری اور نجی سطع پر جشن مناءے جاتے ہیں۔ سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے۔ میں یہاں کے ذہین لوگوں کی بات کر رہا تھا اس دن کے حوالہ سے میں اس ذہین و فطین شخص کو سلام کرتا ہوں جس نے یہ نعرہ ایجاد کیا----- جشن آزادی مبارک ہو------ جشن آزادی کی مبارک ہے آزادی کی نہیں۔ نعرہ نے کمال کا ہاتھ دکھا یا ہے۔ وہ جانتا تھا ہم آزاد نہیں‘ آزادی کا سہانا خواب دیکھ رہے ہیں۔ خواب دیکھنے اور خوش فہمی میں مبتلا رہنے پر کوئ پابندی تو نہیں ورنہ قوم خادم اور حکومتی گماشتوں کی غلام ہے۔ یہ خادم اور حکومتی گماشتے امریکہ کے پیٹھوں کے غلام ہیں۔ کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟

جو لوگ منصف کے درپے ہو جاتے ہیں‘ اسے نیچا دکھانے اور اپنا دلال بنانے پر اتر آتے ہیں انھیں الله ہی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ وہ صم بکم عم فاھم لا یرجعون کے درجے پر فاءز ہو جاتے ہیں۔ قوم کے حصہ میں فقط جشن آیا ہے سو وہ دھوم سے منا رہی ہے۔ الله ناکرے آتے سالوں میں بھی صرف جشن پر ہی اکتفا کرے۔

میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ ملک کا آءین معطل یا چیلنج ہو چکا ہے۔ میری اس تحریر

کو کسی ایک نے بھی چیلنج نہیں کیا۔ اس نام نہاد جشن آزادی کی کرتوت یہ ہے کہ ملک چیلنج یا معطل آءین کے حوالہ سے چل رہا ہے۔عوام آخر کس قانون اور آءین کے تحت جشن منا رہے ہیں۔ یہ جشن بھی غیر آءینی ہے۔ عوام کو تو جھوٹ موٹھ کی خوشی منانے کا بھی حق حاصل نہیں۔

سال رواں کے اس رواءیتی جشن کے موقع پر مجھے محمد نعیم صفدر انصاری ایم پی اے قصور کا ایک موباءل میسج ملا

۔۔۔۔۔۔۔ زنجیریں غلامی کی‘ دن آتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی ۔ چودہ اگست ہپی انڈیپنڈنس ڈے-----

محمد نعیم صفدر انصاری نوجوان سیاست دان ہے۔ اس کا موباءل میسج میرے مندرجہ بالا موقف کا زندہ اور جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ایک ایوان کے ممبر کے موباءل کے منہ سے نکلی یہ بات اس امر کا واضع ثبوت ہے کہ ملک اور قوم کا درد رکھنے والے نوجوان بھی اس غلام اور غبن اور کرپشن آلودہ فضا میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ محمد نعیم صفدر انصاریایوان کلچر کا نماءندہ ہےگویا یہ ون مین گھٹن نہیں ہے پورے ایوان کی گھٹن ہے۔

یہ تو مثل ایسی ہے کہ بہو کو کہا جاءے بیٹا سب کچھ تمہارا ہے لیکن کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔ یہ کیسی نماءندگی اور علاقائ سربراہی ہے کہ لیا سب کچھ جاءے لیکن دیا اندھیرا جاے اور پھر بھی مورخ سے کہا جاءے لکھو بادشاہ بڑا دیالو کرپالو اور دیس بھگت تھا۔ بہر طور مجھے خوشی ہوئ کہ ہمارے ایوانوں میں محمد نعیم صفدر انصاری جیسے نماہندے موجود ہیں جو اس امر کا شعور رکھتے ہیں کہ پاکستانی قوم کے ہاتھ صرف جشن آزادی لگا ہے‘ آزادی ابھی کوسوں دور ہے۔ پرانی نسل دیسی گھی کھاتی تھی اس کے جسم میں وافر خون تھا۔ دیسی گھی تو دور کی بات اس کے پاس تو

سوکھی روٹی بھی نہیں۔ خون کہاں سے آءے گا۔ آزادی خون مانگتی ہے اس لیے پیٹ بھرنے تک جشن آزادی کی مبارک باد پر ہی گزارا کرنا کافی رہے گا۔

 

Views: 26

Reply to This

Badge

Loading…

Events

© 2025   Created by John Santiago.   Powered by

Badges  |  Report an Issue  |  Terms of Service