High-Tech, High-Touch For Your Higher Education
کیا ملک کا آءین معطل یا چیلنج ہو چکا ہے؟
زندگی کا کمزور سے کمزور حوالہ لایعنی اور معنویت سے تہی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات وہی حوالہ مضبوط حوالوں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور اس کے بغیر بن نہیں پاتی۔ انسان کو اس ذیل میں انتہائ محتاط روی سے کام لینا چاہیے ورنہ وقت گزر جانے کے بعد بےبسی اور بےچارگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ ہم ١٨١٢ سے آج تک مغرب کے قدموں پر قدم رکھتے چلے آ رہے ہیں۔ کیا ملا ہے‘ ذلت وخواری! ہاں دھرتی ماں کے غداروں دلالوں اور مغرب کے جھولی چکوں کے تب سے وارے نیارے ہیں۔
پاکستان کی تشکیل میں لوگوں نے لہو کی ندیاں بہا دیں۔ ان بےچاروں کا خیال تھا کہ پاکستان بنے کے بعد ذلت وخواری سے نجات حاصل کر لیں گے۔ ان کی آنے والی نسل سکھ اور چین کی گزارے گی معاملہ ان کی سوچ کے برعکس ہوا۔ مغرب کے گماشتے پاکستان کی قسمت کے مالک و وارث بن بیٹھے۔ مغرب کی پیروی میں ترقی خیال کی گئ اور کی جا رہی ہے۔ قوم کو طے شدہ قومی زبان تک میسر نہیں آ سکی۔ قوموں کی ترقی میں زبان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ انگریزی بطور لازمی مضمون پڑھائ جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر پڑھاکو نے امریکہ جا کر نوکری کرنی ہو ورنہ بازار میں اس زبان کو رائ بھر حیثیت حاصل نہیں۔ سارے مضامین پاس کرکے بھی کامیابی ممکن نہیں جب تک انگریزی میں کامیابی حاصل نہیں ہو جاتی کامیابی کا منہ یکھنا نصیب نیہں ہوتا۔
انگریزی ہی مغرب کی عطا نہیں‘ جمہوریت بھی خانہ خرابی میں بےمثل کردار ادا کر رہی ہے
اگر جمہوریت ہی سچ کا معیار ہے تو کوئ نبی حق پر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اکثریت انبیاء کرام کے خلاف تھی۔ لاکھ ڈیڑھ لاکھ ووٹوں میں سے بیس ہزار چار سو کچھ ووٹ حاصل کرنے والا علاقے کا نماءیدہ قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ وہ بیس ہزار چار سو کچھ لوگوں کا نماءیدہ ہوتا ہے۔ یہ کس طرح کا طرز حکومت ہےجو بھاری اکثریت کے مسترد کر دینے کے باوجود علاقے کا متفقہ لیڈر ٹھرتا ہے۔ گویا جو اسے لیڈر تسلیم نہیں کر رہے ہوتے جمہوریت اسے ان کا لیڈر تصور کرتی ہے۔
یہ اندھیر نہیں تو اور کیا ہے!
میں نے اپنے کسی مضمون میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کا آءین معطل یا چیلنج ہو چکا ہے لیکن میری بات پر غور نہیں کیا گیا۔ گویا یہ ملک معطل یا چیلنج آءین کے باوجود چل رہا ہے۔ عدلیہ نے صرف اور صرف اپنی توہیں کی پی ایم کو سزا دی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بقول پی ایم انھوں نے عدلیہ کا حکم نہ مان کر اءین کی پاسداری کی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو عدلیہ نے آءین شکنی سے کام نہیں لیا آخر اس نے ایسا حکم کیوں دیا جس کی آءین اجازت نہیں دیتا۔ اگر یہ آءین کے عین مطابق ہے تو اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث اسمبلیاں فارغ نہیں ہو گیں۔ یہ معاملہ طے ہوءے بغیر دونوں اداروں کا کام جاری رکھنا آتے وقتوں کے لوگوں کے لیے بہت بڑا لطیفہ ہو گا جب کہ آج کے زندہ لوگوں پرزبردستی کے مترادف ہو گا۔ اگرچہ آج کا ہر گزرتا لمحہ زور زبردستی کا نمونہ ہے۔ لوگ بھوک پیاس اور اندھیروں میں دن رات بسر کر رہے ہیں۔ عدلیہ پر سخت لفظوں کی گرفت اس کے کردار کو مشکوک بنا رہی ہے۔
یہ اصول صدیوں پہلے سے طے پا گیا ہے کہ لوگ ملک
یعنی حاکم
کے قدموں پر چلتے ہیں۔ کسی بھی الیکشن لڑنے والے کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ ملک کا شہری ہو۔ اگر اسے مکمل شہری حقوق حاصل نہیں ہیں تو وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔ کوئ بھی سیاسی عہدے دار‘ عہدے دار بعد میں ہوتا ہے پہلے شہری ہے۔ شہریت اس سے چھین لیں وہ سیاسی عہدے دار نہیں رہتا۔ اگر وہ خرابی کرتا ہے تو اسے سیاسی عہدے دار ہونے کے باعث چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ حقوق کی حصولی کے ساتھ ساتھ اسے بطور شہری اپنے فراءض بھی ادا کرنا ہوتے ہیں۔ یہ تو کوئ بات نہ ہوئ کہ وہ حقوق گرہ میں ڈالے اور اپنے فراءض کوڑادان میں ڈال دے۔
توہین عدالت کی سزا‘ دراصل کسی جج جو شخص بھی ہوتا ہے کی توہین کی سزا نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق عدالت کے حکم یا فیصلے سے متعلق ہے۔ ہر حکم یا فیصلہ ملکی قانون سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ گویا توہین عدالت کی سزا ملکی قانون سے انحراف یا لاپرواہی یا اس سے بالاتر ہونے کے زعم کی ملتی ہے۔ توہین عدالت کی سزا اس امر کی جانب اشارہ ہوتا ہے کہ قانون ہر کسی سے اور ہر سطع پر بالاتر ہوتا ہے۔ وہ قانون غلط ہے یا صیحح‘ اس کا ذمہ دار جج نہیں ہوتا اور ناہی کسی کو سزا دینے کا تعلق جج کی پسند ناپسند یا انا سے نتھی کیا جا سکتا ہے۔ وہ قانون کی تشریح وتفہیم اور اس حوالہ سے موجود شواہد کے مطابق قانون کی بالادستی قاءم کرتا ہے۔ بات نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم ہوتی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ملک کے قانون کو دانستہ نہ ماننے کی سزا دی ہے۔ اس سزا پر جلوس نکلے ہیں۔ جلوس میں شامل لوگ کرایے کے ٹٹو ہوں یا قانون سے ناواقف یا دھڑا کٹنے والے ہوں یا کسی اور قماش کے‘ جلوس تو نکلے ہیں جو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے عدم اعتماد کا ثبوت ہے۔ ان ہی لوگوں کے حوالہ سے نماءندے چنے گءے اور ان نماءندوں نے ملک کا آءین بنایا۔ یہ عدلیہ کے خلاف جلوس نہیں نکلے بلکہ اس آءین کے خلاف نکلے ہیں جو عوامی نماءندوں نے اسملی کی نشتوں پر بیٹھ کر بنایا ہے۔
وزیراعظم نے اس قانون کو غلط اور آءین سے ہٹ کر سمجھتے ہوءے تسلیم نہیں کیا۔ جلوس نکالنے والے بھی اصولی طور تاءید کر رہے ہیں۔ عدلیہ نے اسے درست سمجھتے ہوءے سزا سنائ۔ بہت سے لوگ عدلیہ کے فیصلے کودرست مان رہے ہیں۔
مجموعی ووٹوں میں سے بیس ہزاریا عوامی نماہندہ ٹھرتا ہے تو آٹے میں نمک لوگوں نے جلوس نکال کر ثابت کر دیا ہے کہ جس قانون کے تحت وزیر اعظم سزا یافہ قرار پاءے ہیں وہ درست نہیں۔ اکثریت جمہوریت کا اصول ہے ظفر کے شعر کو غالب کے کھاتے میں ڈال رہی ہےتو اسے تسلیم نہ کرنا جمہور کی توہین کے مترادف ہے۔ معاملے کو جس بھی زاویہ سے ملاحظہ کریں گے تو یہی بات سامنے آءے گی کہ آءین معطل یا چیلنج ہو چکا ہے۔ اب کوئ بھی ادارہ جو اقدام لے گا کسی قانون اورضابطے میں نہیں آءے گا بلکہ غیر آءنی ہو گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کام سے پہلے آءین کی بحالی کا بندوبست کیا جاءے۔
اس معاملے کو کمزور حوالہ سمجھتے ہوءے نظر انداز کیا گیا تو پہلے فوج آءین کو معطل کرتی رہی ہے آج اسے وزیراعظم عدلہ اور عوام نے معطل یا چیلنج کیا ہے۔ آج اگر میری اس بات پر غور نہ کیا گیا تو آتا کل جب ہم نہیں ہوں گے اس معاملے کے حوالہ سے وزیراعظم عدلیہ اور عوام کو دشنام کرے گا۔ کیوں نہ کرے گا‘ ہماری کور مغزی کا بھگتان تو اسے کرنا پڑے گا۔
Tags:
© 2025 Created by John Santiago. Powered by