High-Tech, High-Touch For Your Higher Education
مذاہب اور حقوق العباد کی اہمیت
ہر شخص جس کنبے میں جنم لیتا ہے اس کنبے کا مذہب' نظریہ اور اصول وضوابط لے کر بڑا ہوتا ہے. اس مذہب یا نظریے سےاس کا قلبی تعلق ہوتا ہے۔ وہ اس مذہب یا نظریے کو دینا کا سچا اور برحق مانتا ہے۔ اپنے مذہب یا نظریے پر فخر کرتا ہے۔ دوسرے مذاہب وغیرہ سے متعلق دلاءل اسے لایعنی لگتے ہیں۔ میں کہتا ہوں جو ماں باپ کنبہ یا قبیلہ کی طرف سے پیدایشی نظریہ یا مدہب ملتا ہے اس پر اترانے والی ایسی کون سی بات ہے۔ اس میں شخص کا اپنا کیا کمال ہے۔ مزا تب ہے جب وہ اپنے مذہب یا نظریے کا غیر جانب دار ہو کر جاءزہ کرے۔ دوسرے مذاہب اور نظریات کے امور سے موازنہ کرے اور اندازہ کرے کون سے اور کس مذہب یا نظریے کے امور انسانی فطرت کے قریب ہیں۔ اس کے مذہب یا نظریے پر اٹھاءے گءے اعتراضات واقعی درست ہیں یا کس سطع پر بددیانتی اور جانبداری کا عنصر موجود ہے۔ جو غلط ہے' وہ غلط ہے. اس پر مادری پدری عصبیت کے حوالہ سے ڈٹے رہنا کسی طرح درست نہیں۔ میں نہ مانوں کی ہٹ کسی طرح ٹھیک نہیں۔ یا یہ کہ فلاں کی کہی ہوئ بات فلاں مذہب یا نظریے سے تعلق رکھتی ہے اس لیے درست نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کے طرز عمل یا سوچ کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔
ہر مذہب دو چیزوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے:
1. اس مذہب کے پوجیور کے حقوق
2. مخلوق کے حقوق
پوجیور کے حقوق میں عبادات ہیں۔ عبادات پوجیور کو پوجیور تسلیم کرنے کا عملی ذریعہ ہوتی ہیں۔ وہ پوجیور ہی کیا جو اپنی مخلوق کا کسی بھی حوالہ سے محتاج ہو یا اس کا وجود مخلوق کی عبادات کی وجہ سے برقرار ہو۔ مخلوق کی عبادات اسے اس کی حالت پر برقرار رکھتی ہوں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مخلوق کی عبادات یا اس کا کوئ منفی یا مثبت فعل پوجیور کی صحت پر رائ بھر اثرانداز نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ اپنی حالت پر رہتا ہے۔ کسی بھی سطع پر اس کی حالت میں کسی نوعیت کی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ وہ ناقابل تغیروتبدل ہوتا ہے۔ وہ قاءم بذات ہوتا ہے۔ پوجیور کسی کا محتاج نہیں ہوتا سب اس کے محتاج ہوتے ہیں۔ کوئ اس کو مانے یا نہ مانےاس پر اس کا کوئ اثر مرتب نہیں ہوتا۔ ادنی ہو کہ اعلی' بالآخر اسی کی طرف پھرنے والے ہیں۔ کوئ برا ہو کہ اچھا پالنے والا وہی ہے۔ وہ ہر کسی کو اس کے قول و فعل سے بالا ہو کر رزق فراہم کرتا ہے۔ کسی کے فعل بد کے سبب وہ اس کے رب ہونے سے انکار نہیں کر دیتا۔
عبادات دراصل مخلوق کا اپنے پوجیور سے اظہار تعلق کا طور ہونے کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی اداءگی کی عملی تیاری ہے۔ اس سے مخلوق کی خدمت کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ مخلوق کی خدمت کا ڈھنگ بھی آتا ہے۔ باجماعت نماز کی اداءگی سے شخص' شخص کے قریب تر رہتا ہے۔ اس طرح شخص' شخص کے دکھ سکھ سے آگاہ رہتاہے۔ اچھے برے وقت میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ کاروباری لین دین کرتا ہے۔جمعہ عیدین اور حج روزمرہ کے اجتماعات سے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ اس طرح اس کے تعلق کا حلقہ وسیع ہو جاتا ہے۔ اس سے سانجھیں وسیع پیمانے پر بڑھتی ہیں۔ ان وسیع اجتماعات میں دوستوں دشمنوں کے حوالہ سے مذاکرات ہوتے ہیں۔ دشمن کی شر سے بچنے کے لیے تدابیر پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ مناسق حج عہد رفتہ کے اصولوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے ادا کیے جاتے ہیں ورنہ بھاگ دوڑ کنکر باری سے الله کریم/پوجیور کی ذات عالیہ پر کیا فرق پڑتا ہے۔ خانہ کعبہ الله نہیں' مسلمانوں کا نقطہ اجتماع ہے۔ الله کا چونے گارے سے کیا تعلق یا یہ کہ وہ اس چونے گارے کے مکان میں اقامت رکھتا ہے۔ وہ تو ہر جگہ پر ہے یہاں تک کہ آسمان کے اس پار اور آسمان کی سرحدوں سے باہر بھی اپنے کامل وجود کے ساتھ موجود ہے۔ وہ الہ ہی کیا جو زمان و مکان کا پابند ہے۔ ہاں مخلوق زمان و مکان کی پابند ہوتی ہے۔
بڑی عید پر جانور ذبح کءے جاتے ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کی قربانی کو یاد رکھنے کا ذریعہ ہے۔ سوال پیدا ہے الله کو خون گوشت وغیرہ کی کیا حاجت ہے۔ یہ تو انسان اپنے ہم جنس انسان کی عظمت کا اعتراف کر رہا ہوتا ہے۔ الله پر کیا احسان کر رہا ہوتا ہے۔ گوشت اور کھال وغیرہ اپنے تصرف میں لاتا ہے۔ ان تمام چیزوں سے الله پر کیا فرق پڑ رہا ہوتا ہے۔ جانور وغیرہ جیب اجازت دیتی ہے تو ہی زمین کے عظیم انسانوں کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ انسان کی عظمت کے اعتراف کو الله قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
زکواتہ کو دیکھ لیں انسان' انسان کو پیسے دے رہا ہوتا ہے اپنے پوجیور کو نہیں اور نہ ہی اس کو اس کی کوئ حاجت ہے۔ انسان پلے سے کچھ نہیں دے رہا ہوتا بلکہ رب کے دیے ہوءے میں سے دے رہا ہوتا۔ جب انسان اس حوالہ سے کسی کی ضرورت پوری کرتا ہے توانسان کا انسان سے معاشی تعاون الله کو اچھا لگتا ہے۔ انسان' انسان سے معاشی تعاون نہ کرے تو رب گریب نہیں وہ حاجت مند کے لیے کوئ دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس کے آنےاور دینے کے ان حد رستے ہیں۔
تمام عبادات کا تجزیہ کر لیں یہ درحقیقت انسان کا انسان سے تعلق جوڑنے کا عملی ذریعہ ہیں۔ ایک شخص نےنماز پڑھ لی یا حج کر لیا یا روزہ رکھ لیا اور وہ سمجھتا ہے سیدھا جنت میں جاءے گا۔ اسےعبادات کے عوض سیر کا تین پاؤ تولنے کی اجازت مل گئ ہے۔ حج کرنے کے بعد حاجی صاحب اور سر پر مکی ٹوپی رکھنے کے اعزاز میں ہر منفی فعل سر انجام دینے کی چھٹی مل گئ ہے تو اس سے زیادہ کوئ غلط بات ہو ہی نہیں سکتی۔ کوئ شخص بکرا ذبح نہیں کر سکتا حج کے لیے جا ہی نہیں سکتا اگر اس کے رشتہ داروں یا ارد گرد کے مقیموں میں کوئ حاجت مند موجود ہے۔ ہمسایہ میں جوان لڑکی باپ کی گربت کے سبب ڈولی نہیں چڑھتی یا کوئ کینسر کے مرض میں مبتلا ہے اور اس کے گھر والے علاج نہیں کرا سکتے ایسی صورت میں حج پر جانا یا بکرا ذبح کرنا معنویت اور اجر سے تہی رہتا ہے۔ یہ عبادات اسی وقت معنویت اور اجر کی حامل ہوں گی جب خوشحالی اور ہر طرح سے سماجی فرغت ہوگی.
گھر یا قرب و جوار میں کوئ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ ہر گزرتا لمحہ اس کو بچانے کے لیے بڑا اہم ہے۔ اس صورت حال میں نماز یا اور کوئ عبادت موآخر کرکے مریض کو یہ دیکھے بغیر کہ وہ کون ہے ہیاں تک کہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو' معالج کے پاس لے جانا ضروری ہو گا۔ کسی کی جان بچانا یا اس کے مشکل وقت میں کام آنا بھی عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اس کا شخصی اور سماجی حق ہے کہ اس کی جان بچائ جاءے۔ نظر انداز کرنے کی صورت میں یہ قرض گردن پر رہے گا۔ قرض تو شہید کو بھی معاف نہیں کیا جاءے گا۔
عبادات مذہب کا ایک حصہ ہے پورا مذہب نہیں۔ عبادات کو مذہب کا ایک جز لازم سمجھ کر ادا کرنا ضروری ہے لیکن عبادات کو مکمل مذہب سمجھ لینا اور ان کے حوالہ سے جنت الاٹ کرا لینے کی سوج کا جنم لینا بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ پورا تولنا' بلا تمیز وامتیاز انصاف کرنا سچی گواہی دینا حقدار کی مدد کرنا سچ بولنا معاف کرنا وغیرہ کو کس طرح مذہب سے الگ کیا جا سکتا ۔ پوجیور انسان کی فلاح اور ظفر مندی چاہتا ہے
ایک بوڑھا اور کمزور شخص اس پار جانے کے لیے مدد چاہتا ہے۔ پیدل یا کار پر بیٹھے شخص کو مذہب آگے بڑھ جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر بڑھ جاتا ہے تو وہ اس بوڑھے شخص کا مقروض مرے گا۔ پوجیور اس سے اس بوڑھے شخص کے قرض کو نظرانداز نہیں کرے گا۔
ایک شخص کے ایک سو ایک حج سات نمازیں اور دیگر عبادات الله کے ہاں یقینا بڑا اعتبار رکھتی ہیں لیکن اس کی رائ بھر کی بددیانتی کی مثل ایسی ہی ہے کہ کوئ دس من خالص دودھ کے کڑاھے میں دو بوند پیشاب کی ڈال دے۔ دو بوند پیشاب دس من خالص دودھ کو غارت کرکے رکھ دے گا۔ گویا رائ بھر بددیانتی اور ہیرا پھیری ان خوبصورت عبادات کے ماتھے پر رسوائ کا کلنک ہو گا۔
حضرت ابراہیم حضرت رام چندر دیو حضرت زرتشت حضرت مہاتما بدھ حضرت کرشن مہاراج حضرت موسی کلیم الله حضرت عیسی ابن مریم سکھ مت کے حضرت گرو نانک دیو یقینا اپنے عہد کے بے مثل اور بےبدل لوگ تھے ۔ ان کی حیات کا دیانت داری سے مطالعہ کریں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ انسان کی خدمت میں گزرا. انہوں اپنے بدترین دشمن کی بھی بہتری اور بھلائ چاہی۔ اس کے لیے دعاءیں مانگیں۔ اس کا برے وقت میں بلا مطلب ساتھ دیا۔ اس کے زخموں پر مرہم رکھا۔ وہ میرے سامنے نہیں ہیں جو میں ان کی ٹی سی کر رہا ہوں۔ وہ اپنے کردار کے حوالہ سے سلام و پرنام کے مستحق ہیں. اگر کوئ اس ذیل میں بخل سے کام لے گا تو بددیانتی کا مرتکب ہو گ
حضرت محمد آپ کی خدمت میں مجھ ناچیز کی طرف سے ان حد درود و سلام انسانی تاریخ کے لاثانی کردار ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی دستاب نہیں جو انسان کی خدمت کے سوا گزرا ہو۔ آپ سجدہ میں گءے حضرت حسین ابن علی ان کی پشت پر سوار ہو گءے. آپ کریم نے اس وقت تک سر سجدہ سے نہیں اٹھایا جب تک وہ نیچے اتر نہیں گءے۔ اگر آپ کریم سر اٹھاتے تو حضرت حسین ابن علی کو گرنے سے چوٹ لگ سکتی تھی۔ یہ کسی گریب ترین کا بچہ بھی ہوتا تو آپ کریم کا رویہ اس سے مختلف نہ ہوتا۔ اس سے بڑھ کر انسان کی خدمت اور عزت کیا ہو سکتی ہے۔ آپ کریم نے انسان کے لیے سجدہ التوا میں کیا. انسان کے معتبر ہونے کے وصف کو نمایاں فرمایا۔
درج بالا شخصیات کے بلند مرتبہ ہونے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجاءش ممکن ہی نہیں۔ ان میں سے کوئ ہم میں موجود نہیں۔ آج جو موجود ہیں ان میں سے بھی کوئ باقی نہیں رہے گا۔ بقا صرف اور صرف الله کی ذات گرامی کے لیے ہے۔ محمد علی جناح دوہائ کے بیرسٹر تھے لیاقت علی خان نواب آف کالا باغ زیڈ اے بھٹو میجر جرنل سکندر مرزا جرنل ایوب خان جرنل آغا محمد یحی خان جرنل ضیاءالحق جرنل موسی خان وغیرہ اپنے عہد کے بڑے پھنے خاں تھے' کہاں اور کدھر ہیں?
اپنے ساتھ کیا کچھ لے کر گءے?!
بےشک رتی بھر دنیا کا مال اپنے ساتھ لے کر نہیں گءے۔
آج کے لوگ بھی پہلوں کی طرح خالی ہاتھ جاءیں گے۔ یہی زندگی اور موت کا رواج ہے۔ آج گزرے کل کا سچ باقی ہے۔ مورخ ڈنڈی مار لے ادب اگلی نسلوں کو سچ پنچا دیتا ہے۔ یہ بھی کہ الله تو سب جاننے والا ہے۔ اس سے کوئ کس طرح حقیقت کو چھپا سکے گا۔ میرا اصرار ہے حقوق العباد ایسا قرض ہے جس سے صرف نظر نہیں ہو گا۔ حاجی نمازی یا زکاتی حقوق العباد سے بالاتر نہیں ہیں۔ ان کا حج یا ان کی نمازیں انھیں اس قرض سے مکتی نہیں دلا سکیں گے بلکہ عبادات اس کے باطن کی خباثت کو کھول کر رکھ دیں گی۔ عبادات کا خلوص انسان کو برائ کی طرف پھرنے نہیں دیتا۔ بددیانت شخص کی عبادات میں کھراپن ہو ہی نہیں سکتا۔
کسی لالچ میں کی گئ عبادت کس کام کی۔ جنت کے حصول کے لیے کی گئ عبادت الله کی عبادت تو نہ ہوئ جنت کی عبادت ہو ہوئ۔ عبادت تو یہ ہے کہ الله کی عبادت کی جاءے کیونکہ وہ عبادت کا حق رکھتا ہے۔ جنت تو انسان کا گھر ہے لہذا وہ اس گھر سےاس گھر الله کی عطا سے جاءے گا ہی۔
جو مذہب یا نظریہ انسان کی خدمت انسان سے پیار کرنا اور شخص کے شخصی اور سماجی حقوق پورے کرنا نہیں سکھاتا وہ مذہب یا نظریہ سچا ہو ہی نہیں سکتا۔ جو پوجیور صرف اور صرف اپنی پوجا پارٹ سے راضی ہو جاتا ہے اور حقوق العباد کو ثانوی درجہ دیتا ہے وہ سچا اور حقیقی پوجیور ہو ہی نہیں سکتا لہذا ایسے مذہب سے جڑے رہنا درست نہیں۔ جب انسان' انسان کے لیے اپنا مال اور خون پیش کرتا ہے' اس کے لیے فکرمند ہوتا ہے' دل سے اس کی بہتری اور بہبود کے لیے دعا کرتا ہے تو پوجیور اس پر راضی ہو جاتا ہے حالانکہ شخص نے اپنے ہی بھائ بند کی خدمت کی ہوتی ہے ۔ پوجیور کی دیا اور عطا انسان تک ہی محدود نہیں۔ ایک چونٹی بھی اس کی مخلوق ہے اور اسے عزیز ہے۔ اگر انسان ایک چونٹی کو سکھ فراہم کرتا ہے تو گویا اپنے اسان ہونے کا حق ادا کر دیتا ہے۔
Tags:
© 2025 Created by John Santiago. Powered by