Freedom University

High-Tech, High-Touch For Your Higher Education

ہم زندہ قوم ہیں

 

 


ہم بڑے لائ لگ قسم کے لوگ ہیں۔ اپنے دماغ سے سوچنے کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ اگر کسی نے کہا کتا تہارے کان لے گیا ہے۔ کان دیکھنے کی بجاءے کتے کے پیچھے دوڑ لگا دیں گے۔ کوئ کتنا ہی کوکتا رہے‘ کان دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے بلکہ کوکنے والے کو ہی کوسنے دیں گے۔


یہ رویہ آج سے مخصوص نہیں‘ بہت پہلےسے انسان کتے کے پیچھے پورے زور شور سے بھاگے چلا جا رہا ہے۔ الله جانے دونوں ابھی تک تھکن کا شکار کیوں نہیں ہوءے۔ دونوں کی رفتار میں رائ بھر کمی نہیں آئ۔ لفظ رائ کا استعمال اس لیے کیا ہے کہ رائ سے کوئ چھوٹی مادی شے ابھی تک دریافت نہیں ہو سکی۔ سل جاندار ہے اور دکھائ نہیں دیتا۔ دکھائ نہ دینے کے سبب ہی مر رہا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے سل بھر محاورہ نہں اخترایا۔ کتے کی وفاداری اپنی جگہ مڑ کر دندی نہیں کاٹ رہا اور بلا جواز مشقت اٹھاءے چلا جا رہا ہے۔


انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ انسان کےکچے کانوں کی بلاجرم سزا بھگت رہا ہے۔ اگر ایک بار وفاداری کے خول سے باہر نکل کر اچانک پیچھے مڑ کر دندی کاٹ لیتا توانسان کو کان ہو جاتے۔ ڈاکٹر پیٹ میں ٹیکے ٹھوکتا۔ جیب ہلکی کرتا۔ نا دانستگی میں کانوں کو ہاتھ لگاتا تو اسے معلوم پڑتا کہ کان تو سلامت ہیں۔ ہاں البتہ سر سلامت نہیں رہا۔ اسے یہ بھی پتہ چل جاتا کہ زخموں سے چور اور نڈھال سرآج بھی غداروں اور مداریوں کے قدموں میں پڑا انسان کی کتا چیکی کا رونا رو رہا ہے۔

استاد کو میری بات سے اتفاق نہیں رہا بلکہ اس کا ماننا یہ ہے کہ سوچنے والا سر پیٹ میں چلا گیا ہے۔ ہمارے ہاں کا شخص پیٹ سے سوچنے کا عادی ہو گیا۔ پیٹ میں حسب ضرورت گرم ٹھنڈا تھندا ڈالتے رہو یہ کتے کے پیچھے بھاگتا رہے گا ۔ پیٹ اور گٹھنوں‘ کان اور پیٹ کا فاصلہ برابر ہو گیا ہے اس لیے پیٹ کان اور گٹھنوں سے پہلے ہے۔ ہر معاملہ میں پیٹ پہلے ہو گیا ہے۔ کان اور گٹھنے روٹی نہیں کھاتے اس لیے وہ قابل ترجیع نہیں ہیں۔ بات میں دم اور خم کی کسی حوالہ سے کمی نہیں۔ دھرتی ماں ہی ہوتی ہے۔ ماں کسی غیر کے حوالے کرکے دیسی گھی کی چوری‘ ولاءتیوں کے ہاتھ سےکھا نےکا مزا دیس بھگت کیا جانیں۔ وہ جانتے ہوءے کہ ولاءتیوں نےمولوی ابوبکر کی گولی کھا رکھی ہے اور ماں کا کیا حشر کرے گا‘ کا تصور بھی پیٹ دشمنی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اسے ماں سے غداری یا بے غیرتی سے زیادہ وقت اور حالات کا تقاضا سمجھا جاتا ہے۔

استاد کی باتوں کا برا نہ مانءیے گا۔ میں بھی اوروں کی طرح ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے محسن کش اور پاکستان دشمن کہلانے کا کوئ شوق نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئ کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے کے منہ سے نکلی سانپ کے منہ میں آ گئ۔ سانپ سے خلاصی ہونے کے ساتھ ہی چھپکلی کے منہ میں چلی گئ۔


پاکستان اور بھارت کی قیادت بڑی اعلی درجے کی رہی ہے۔ یہ بڑے نیک شریف اور دیس بھگت رہے ہیں۔ جو بھی ان کے کردار پرانگلی رکھے گا ناک کی سیدھ پر دوزخ نرک میں جاءے گا۔ پاکستان کی قیادت کو بسم الله تک آءے یا نہ آے اسلام دوست رہی ہے۔اس نے ہر قدم پراسلام دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ استاد کا کیا ہے وہ تو بونگیاں مارتا رہتا ہے۔ ساری دنیا مورخ کی مانتی آئ ہے اور مورکھ اقتدار کا گماشتہ رہا ہے۔ مورکھ وچارہ بھی تو نسان رہا ہے۔ پاپی پیٹ اسے بھی لگا لگایا ملا ہے۔ اس نے چند لقموں کے لیے ضمیر بیچا ہے۔ بڑی پگڑی والے سر خان بہادرز بھی یہی کچھ کرتے آءے ہیں اور وہ ہمارے ہیرو ہیں۔ کیوں نہ ہوں انگریز ساختہ ہیں۔ ان کے انگریز ساختہ ہونے میں رائ بھر کھوٹ نہیں۔


نظام ملنگی سلطانہ بھگت سنگھ آزاد وغیرہ انگریز ساختہ ڈاکو ہیں اور ہم میں سے ہر کسی کا یہی مناننا ہے۔ میں بھی بالاءے زبان یہی کہتا ہوں۔ میں دل سے نہیں مانتا۔ کسی کو میرے دل سے کیا مطبل منہ زبانی ایک بار نہیں ہزار کہتا ہوں کہ یہ ڈاکو تھے‘ ڈاکو تھے۔ ان کا ڈاکو ہونا ہر شک سے بالاتر ہے۔


انگریز ساختہ ہیروز بھی اپنی اصل میں مہا ڈاکو تھے۔ وہ انگریز کی اشیرباد سے گریب اور کمزور لوگوں کی جان مال اور عزت پر دن دھاڑے برسرعام پوری دھونس سےڈاکہ نہیں باربار ڈاکے ڈالتے تھے۔ نظام ملنگی سلطانہ وغیرہ ان سرکاری خان بہادر ڈاکوں کے گھروں میں رات کےوقت ڈاکے نہیں ڈاکہ ڈالتے اور گریبوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ سرکاری ڈاکو محلوں میں رہتے تھے اور یہ خالی ہاتھ چھانگا مانگا کے جنگوں میں چھپتے پھرتے تھے۔ سرکاری خان بہادر ڈاکو دھرتی ماں کے دلال تھے۔ یہ دھرتی ماں کے بھگت تھے۔


پاکستان بنانے والوں کا نام تک کسی کو یاد نہیں لیکن ان انگریز ساختہ ہیروز کو سب جانتے۔ ٹیپو ہیرو تھا ساری عمر تلوار کی نوک تلے رہا۔ یہ ایسے ہیروز ہیں جنہوں نے پوری قوم کو تلوار کی نوک تلے رکھا۔ پاکستان کے لیے اسلام کا نام استعمال ہوا لوگوں نے اسلام کے نام پر جانیں قربان کیں۔ بے گھر ہوءے۔ لیکن انھیں کوئ جانتا تک نہیں۔


ذرا ان سوالوں کا جواب تلاشیں


١٩٠٥

میں واءسراءے ہند سے ملنے والے گروہ کا سردار کون تھا اور اس کا انگریز سے کیا رشتہ تھا؟

تقریر کس انگریز نے لکھ کر دی اور وہ انگریز کس کا نماءندہ تھا؟


واءسراءے نے کیا اور کیوں مشورہ دیا؟


١٩٠٦

میں مسلم لیگ کی قررداد پیش کرنے والے کے پاس انگریز سرکار کے کتنے ٹاءیٹل تھے؟

کیا وہ انگریز سے پوچھے بغیر ٹٹی پیشاب کر لیتا تھا؟


مسلم لیگ کے جملہ صدور عہدے دران وغیرہ میں سے کتنے سر اور انگریز سرکار کے چمچے کڑچھے تھے؟


استاد کہتا ہے جو ہیروز تھے ان کا کہیں ذکر تک نہیں اور جو زیرو بھی نہیں تھے پیٹ نواز مورکھ نے انھیں زمین کا سنگار بنا دیا ہے۔


استاد کی باتیں اگرچہ سچ اور حقاءق پر مبنی ہیں لیکن سچ کو کب تسلیم کیا گیا ہے۔ میں استاد سے اکثر کہتا ہوں ایسی کڑوی بات نہ کیا کرے۔ لوگوں کو کتے کے پیچھے بھاگنے دے۔ زندہ قومیں مسلسل بھاگتی ہیں۔ بھاگنے سےہی بھاگ جاگتے ہیں۔


اس بات کا دکھ نہیں ہونا چاہیے کہ بجلی بند ہے خوشی اس بات کی ہونی چاہیے کہ سب کی بند ہے۔ ہم زندہ قوم ہیں اور اس پرچم تلے سب ایک ہیں۔

 

Views: 130

Reply to This

Badge

Loading…

Events

© 2025   Created by John Santiago.   Powered by

Badges  |  Report an Issue  |  Terms of Service