Freedom University

High-Tech, High-Touch For Your Higher Education

سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب کا قتل عام

 

 

 

سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب

(1)

انسان ہمیشہ سے اپنے سے پہلوں کی بڑی دلچسپی اور توجہ سے کھوج کرتا آ رہا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے بڑے فکری معاشی اور معاشرتی حوالہ سے کہاں کھڑے تھے۔ ان کی نفسیات کیا تھی۔ اس ذیل میں وہ اپنا اور ان کا موازنہ بھی کرتا آ رہا ہے۔ انسان اپنے پرکھوں کی عزت کرتا ہے۔ ان کی اخلاقیات کی تحسین کرتا ہے۔ ان کی بہت سی باتوں پر فخر کرتا ہے۔ اس ضمن میں ان کو خود سے بہترسمجھتا آ رہا ہے۔ ان کی بعض کوتاہیوں کو صرف نظر کرتا ہے۔ ان کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے والے کو برداشت نہیں کرتا۔ یہ اس کی نفساتی کمزوری ہی نہیں اپنے ماضی سے پیار اور اس سے اٹوٹ رشتہ ہونے کی دلیل بھی ہے۔ گویا انسان کی مثل زنجیر کی سی ہے۔ اگر وہ ماضی کے کسی شخص کو برا سمجھتا ہے تو بھی یہ اس سے متعلق ہونے کا ثبوت ہے۔

مورکھ (مورخ) ہو کہ واقعہ نگار‘ اس کو زندہ ہو کہ صدیوں پہلے کا مردہ بادشاہ عزیز رہتا ہے۔ کچھ ہی دن ہوے اخبار میں مع تصور خبر چھپی کہ

جہانگیر بادشاہ کے مقبرے کی حالت بڑی بری ہے۔ خبر یوں لگی جیسے اس بر توجہ نہ دی گئ تو سماجی معاشی اور سیاسی دنیا برباد ہو جاءے گی۔ ککھ نہیں رہے گا۔ مجھے دکھ اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ قصور میں موجود سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب کا ستیاناس مار کر رکھ دیا گیا ہے۔ باقی ماندہ آثار کی گردن مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کسی کو پرواہ تک نہیں۔ میں نے کسی بادشاہ کی قبر مبارک کا سراغ لگانے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ چاہے دین الہی کا سا مذہب ایجاد کرنے والا مسلمان تاریخ میں شامل بادشاہ ہی کیوں نہ ہوتا۔ میں نے تلاش کا عمل ابھی ختم نہیں کیا۔ ایک نہ ایک دن کوئ بادشاہ ضرور تلاش لوں گا کیونکہ مغلیہ عہد کی کچھ چیزوں کا سراغ مل گیا ہے۔

 

جس سات سے نو ہزار سال پرانی تہذیب کے فتل عام سے متعلق اپنی معروضات پیش کرنے جا رہا ہوں اس کا ہلکا پھلکا تعارف پیش کر رہا ہوں تاکہ اس علاقہ کے تاریخی ہونے کے حوالہ چند ابتدائ معلومات درج کر رہا ہوں تاکہ قاری کسی حد تک قصور* کو جان اور پہچان سکے

۔

قصور حضرت بابا

بلھے شاہ کی سرزمین ہے۔ حضرت فریدالدین گنج شکر نے یہاں چلہ کاٹا۔ ان کی چلہ گاہ آج بھی موجود ہے اور اس کی زیارت کے لیے لوگ یہاں آتے رہتے ہیں شہرہ عالم کی حامل پنجابی مثنوی “ہیر“ جو ہیر وارث کے نام سے جانی جاتی ہے‘ کے شاعر پیر وارث شاہ نے کسب علم اسی شہر سے حاصل کیا۔ حضرت پیرمہر علی شاہ صاحب اکثر یہاں تشریف لاتے رہتے تھے۔ میرا سوہنا شہر کی گاءک ملکہ ترنم نور جہان اسی شہر سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت شاہ حسین کے پیر بھائ‘ صدر دیوان

یہاں اقامت رکھتے تھے اس لیے حضرت شاہ حسین لاہوری یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ حضرت غلام محی الدین داءم حضوری اور خواجہ غلام مرتضی کا تعلق قصور سے تھا۔

حضرت بابا

گرو نانک دیو کے مسیر یعنی خالہ زاد رام تھمن قصور میں رہایش رکھتے تھے اس حوالہ سے وہ یہاں تشریف لاءے۔

راجہ

ٹوڈر مل ماہر مالیات اور اکبر کا نورتن قصور سے تعلق رکھتا تھا۔ اکبر کے سرکاری گویے تان سین کو یہاں ( روہے وال) جاگیر عطا ہوئ۔ اپنی جاگیر پر آیا تو حضرت پیر اخوند سعید ان کا موزک سننے گءے۔گویا تان سین گویا ہی نہیں قصور کا جاگیردار بھی تھا۔ کہتے ہیں بادشاہ ہند رضیہ سلطانکی بادشاہی کو زوال آیا تو وہ قصور آگئ ۔ بڑے قبرستان میں آج بھی اس کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔

سنگیت کی دنیا کے بادشاہ استاد

بڑے غلام علی اور استاد چھوٹے غلام علی شہر قصور کے رہایشی تھے۔ راگ جنگلہ قصور کی ایجاد ہے۔ معروف سنگر منظور جھلا قصور کا رہنے والا تھا۔ جہان فن کے مصنف ڈاکٹر ظہور احمدچوہدری کا تعلق کوٹ رادھا کشن‘ قصور ہے۔

مولانااحمد علی جنہیں کشف القبور میں مہارت حاصل تھی کی قصور بلھے اور

کمال چشتی کے دربار پر حاضری ثابت ہوتی ہے۔

عبدالله عبدی خویشگی

مصنف اخبارالااولیا‘ مفتی غلام سرور چونیاں جو آج قصور کی تحصیل ہے میں ملازمت کرتے رہے' مولانا غلام الله قصوری‘ مولانا غلام دستگیر‘ علامہ شبیر احمد ہاشمی‘ علامہ مہر محمد خاں ہمدم (شاہنامہ اسلام ہمدم کے شاعر)‘ بانگ درا کا دیباچہ لکھنے والے سر عبدالقادر‘ تحریک مجاہدین کے سر گرم کارکن مولانا عبدالقادر وغیرہ قصور کے رہنے والے تھے۔

عبدالستار نیازی

تحریک ختم نبوت کی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے قصور کے مہمان بنے۔ صاحب خانہ کے صاحب زادے کی مخبری پر گرفتار ہوءے

سید

نادر سمشیجنہیں ١٩١٩ کی مارشل کی خلاف ورزی اور تھانے کی توڑ پھوڑ کے الزام میں کالے پانی بھیجا گیا قصور کے بہادر سپوت تھے۔

ناموس رسالت کی پاسداری میں ١٩٣٥ میں پھانسی کی سزا پانے والے غازی

محمد صدیق

کا تعلق قصور سے تھا۔

 

صوفی شاعر

غلام حضور شاہ قصوری‘ سوہن سنگھ سیتل‘ احمد یار خاں مجبور(میرا ایم فل کا مقالہ ان کی شاعری پر تھا)' آزر روبی معروف مصور‘ منیر احمد ساءنسدان‘ بھارت کی کسی ہاہیکورٹ کے چیف جسٹس ملہوترا‘ خواجہ محمد اسلام مصنف موت کا منظر‘ پروفیسر صحافی وزیر ارشاد احمد حقانی

 

ڈاکٹر مولوی محمد شفیع‘ علیم نصری مصنف شاہ نامہ بالا کوٹ‘ سی ایل نارنگ‘ چنن سنگھ ورک محقق اقبال قیصر‘محقق اقبال مجدی‘محقق ڈاکٹر ریاض انجم‘ معروف صحافی اسدالله غالب‘ تنویر بخاری‘ عبدالجبار شاکر‘ صادق قصوری وغیرہ قصور کے رہایشی رہے ہیں۔ اسی طرح عالمی شہرت یافتہ کینسر مرض کے ماہر ڈاکٹر محمود‘ ڈاکٹر ہمایوں نیرو سرجن‘ ڈاکٹر نعیم قصوری‘ ۔ ڈاکٹر سید کنور عباس ماہر اقتصادیات قصور کے رہنے والے ہیں۔

 

آءین 1973 کے خالق

میاں محمود علی قصوری کا تعلق قصور سے ہے۔ زیڈ اے بھٹو کو تختہ دار تک پہچانے والا بھی قصور سے تعلق رکھتا ہے۔ پنجاب کے پہلے وزیراعظم نواب افتخار احمد ممدوٹ قصور سے ہیں انکے والد نواب شاہ نواز ممدوٹ قاءداعظم کے دست راست تھے۔ معین قریشی سابقہ وزیراعظم پاکستان قصور سے تعلق رکھتے تھے۔ سردار آصف احمد علی‘ سردار عارف نکئ سباقہ وزیر اعلی پنجاب قصور کے ہیں ملک شوکت عزیز سابقہ وزیراعظم کا تعلق قصور سے ہے۔ پنجاب کا پہلا چیف سیکریڑی عبدالمجید شیخ کا تعلق قصور سے ہے۔

 

یوسف خاں اور ضیاء محی الدین قصور کے ہیں۔

بھگت سنگھ آزاد کے ننھیال قصور کے ہیں۔ ان کے ڈیتھ ورانٹ پر دستخط بھی ایک قصوری مجسڑیٹ نے کیے۔ کرانتی کار نظام لوہار اور ملنگی قصور کے ہیں۔ معوف ڈاکو جگت سنگھ المعروف جگا کا تعلق بھی قصور سے ہے۔

 

علامہ علاؤالین صدیقی،

صوفی تبسم‘ سید عابد علی عابد‘ ڈاکٹر سید عبدالله‘ اشفاق احمد‘ اختر شمار وغیرہ قصور تشریف لا چکے ہیں۔

میتھی

جوڑوں کے درد کی شفا اور بطور سبزی پوری دنیا میں اپنا الگ سے شہرہ رکھتی ہے۔ فالودہ اور اندرسے قصوری تحفہ ہیں۔ پیروں میں پورا نہ آنے کے سبب قصوری جتی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔

 

قصور سے تعارف کے لیے یہ بہت ہی مختصر تفصیل کافی لگتی ہے۔ میں اسے یہاں ختم کرتا ہوں کیونکہ اس کے بعد کےانکشافات اس تفصیل سے کہیں زیادہ حیران کن ہوں گے۔

 

(2)

بابا جی بلھے شاہ کے مطابق قصور قصر سے ترکیب پایا ہے۔ قصر کی جمع قصور ہے۔ سترویں صدی میں یہ شہر آباد و شاداب تھا اور سکھوں کا تسلط تھا

راجہ راءے سنگھ کا سکہ چلتا تھا اور اس شہر کا نام شکر پور تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ نام گنج شکر کے حوالہ سے ترکیب پایا ہو۔ بابا فرید شکر گنج کے مرید اور ان کے متعلق اوروں کا بھی یہ شہر بسیرا رہا ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ وہ یہاں خود بھی تشریف لاءے۔ بابا صاحب کے دادا جان قاضی شعیب الدین بھی یہاں تشریف لاءے۔ گویا بابا فرید سے پہلے قصور سے ان کے خاندان کا تعلق واسطہ تھا۔

اس ذیل میں یہ روایت بھی موجود ہے:

(

حضرت) رام چندر (جی) کے دو بیٹے‘ لاو اور کش تھے۔۔۔۔۔۔چوتھی صدی قبل مسیح میں لاو (یا لاہ) اور کش نے لاہور اور قصور شہر قاءم کءے۔ دوسرے بیٹے کا نام کس بھی بتایا جاتا ہے۔ (١) لو اور کش سیتا کے بطن سے تھے اور راجپوتوں کے دو خاندان خود کو ان کی اولاد بتاتے ہیں۔ (٢) اس روایت کے مطابق اس علاقے کو قاءم ہوءے چوبیس سو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ کسی رویت کو اس وجہ سے تسلیم نہ کرنا کہ وہ مخالف نظریہ کے شخص کی ہے‘ کسی بھی حوالہ سے درست نہیں۔ قصور اگرچہ اس سے پہلے بھی موجود تھا تاہم یہ نام ( کسور) اس دور میں ملا۔ اس سے پہلے اس کا نام کوئ اور رہا ہو گا۔

 

یہ کہنا کسی طرح درست نہیں لگتا کہ قصور کش نے آباد کیا اصل معاملہ یہ تھا کہ حضرت رام چندر جی نے لاہ کو لاہور والی ولایت اور

کش کو قصور والی ولایت بطور جاگیر عطا کی۔ سکندر اعظم ویرانے میں ٣٢٦ یا ٣٢٩ میں نہیں آیا ہو گا علاقہ بیاس خوب آباد رہا ہوگا۔ یہی نہیں قصور پورے ہندوستان کی ذرخیز ترین ولایت تھی۔ گندم مکئ گنا سبزیات بشمول میتھی خصوصا جانوروں کا چارہ وغیرہ کی پیداوار کے حوالہ سے معروف رہا ہو گا۔ سکندری فوج نے خوب تباہی مچائ ہو گی۔ جوابا وہ بھی مرے ہوں گے۔ ان کی قبریں وغیرہ یہاں ہی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے قبرستان جٹو میں ان کو دفنایا گیا ہو گا۔ چینی سیاح ہیون سانگ جو بدھ مت کا پرچارک بھی تھا‘ کے ہاں قصور کا ذکر موجود ہے۔ کپڑے کی صنعت کل سرسوں سے تعلق نہیں رکھتی۔ اسی طرح اسلحہ سازی میں کمال رکھتا تھا۔ اس ذیل میں کمال کے ہنرمند موجود تھے۔ پورس کی فوج کو آخر رسد کہاں سے دستیاب ہوتی ہو گی۔ یہ مانا نہیں جا سکتا رسد پوٹھوہار سے آتی ہو گی۔ علاقہ بیاس کے حوالہ سے رسد اور سپاہ اسی ولایت سے دستیاب ہوتی ہو گی۔

 

لاہور نام کے شہر افغانستان اور پشاور میں بھی بتاءے جاتے ہیں۔ راجپوتانہ میں شہر لوہار موجود ہے۔ لہارو بھی ایک جگہ کا نام ہے۔ اس طرح کے اور نام بھی ملتے ہیں۔ گویا لاہ کی دسترس دور دراز علاقوں پر رہی ہوگی۔ اسی طرح بقول سید محمد لطیف اور کنہیا لال تحریروں میں لاہور؛ لوہار‘ لوہر‘ لوہ آور‘ لھانور‘ راہ رو‘ لہا‘ لہانو‘ لوپور‘ لوہارپور بھی آتا ہے۔ راجے مہاراجے اپنی اولاد اور دیگر خدمت گاروں کو گزارے کے لیے جاگیریں دے دیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ فوج کے حوالہ سے اور انگریز کی عطا کی گئ جاگیروں والے لوگ ہمارے ہاں موجود ہیں۔ غالبا لوہے سے متعلق پیشہ کے کام کرنے والے کے لیے لوہار مستعمل ہو گیا ہو گا۔ لوہ بہت بڑے یودھا رہے ہوں گے اور لوہا میں اس حوالہ سے ڈوبے رہتے ہوں گے۔ ویسے ہمارے ہاں بلکہ پوری دنیا میں نام بگاڑنے کا عام رواج ہے۔ یہاں ایک صاحب کا نام مولوی چھوٹیرا تھا وقت گزرنے کے بعد نام بگڑ گیا مولوی بٹیرا نام معروف ہو گیا۔ فضل دین سے فجا جنت بی بی سے جنتے ایسے نام سننے کو ملیں گے۔

 

حضرت

رام چندر جی کے خاندان کے لوگ دونوں ولاءتوں میں حکومت کرتے رہے۔ اس خاندان کے

ایک راجے نے لاہور پر حملہ کرکے اس پر اپنا تسلط حاصل کر لیا۔ (٣) لاہور اور قصور ایک ولایت ٹھہرے۔ گویا اس حوالہ سے سیاسی سماجی معاشی اور معاشرتی اختلاط وجود میں آیا۔ قصور اس حوالہ سے بہت بڑی مضبوط اور توانا ولایت ٹھہرتی ہے۔ اس امر کے ثبوت اس کے کھنڈرات سے‘ جو ابھی کسی حد تک باقی ہیں سے تھوڑی سی کوشش کے بعد دستیاب ہو سکتے ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی بھی موجود ہیں جس سے اس عظیم الشان ولایت کے دفاعی نظام کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

 

ش آواز کا س یا س کا ش میں تبدیل ہونا کوئ نئ بات نہیں۔ کس پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ ور پور کا تبادل ہے۔ جیسے جبل پور‘ نور پور‘ وزیر پور‘ بجید پور وغیرہ۔ پور سے پورہ ترکیب پایا ہے۔ تاہم ور بھی مستمل ہے جیسے بجنور بجن ور‘ اخنور اخن ور‘ پشاور پشا ور‘ سنور سن ور‘ کلانور کلان ور وغیرہ ۔ ور پور اور پورہ لاحقے جگہوں کے لیے استعمال میں آتے ہیں۔

 

کش سے کس ہوا اور کس پر ور کا لاحقہ بڑھایا گیا اور اس سے کسور ترکیب پایا۔ اس رویت سے متعلق قصور کش والا قصور ہے۔ پٹھانوں کو جو علاقہ ملا اس پر انھوں نے عمارتیں تعمیر کیں اور یہ پٹھانوں کے دور سے نام مستعمل نہیں ہے۔ کثو بھی تحریروں میں آتا ہے اور اسی سے کثور ترکیب پایا ہو۔ ث کے لیے بھی رومن لکھتے ایس استعمال ہوتا ہے۔

 

حضرت

امیر خسرو یہاں تشریف لاءے اوران کے مطابق یہ عمارتوں کا شہر تھا اب عمارتیں ختم ہو گئ ہیں۔ یہ سات سو سال پہلے کی بات ہے۔ گویا سات سو سال پہلے بھی کھنڈرات پر ہی شہر آباد تھا اور اس کا نام قصور (کسور) تھا۔

 

انگریز کے آنے سے رومن رسم الخط نے رواج پایا۔ ترقی پانے کے لیے رومن خط کا جاننا ضروری تھا۔ سپاہی سے آنریری کیپٹن تک ترقی پانے کے لیے فوج میں کلاسیں ہوتی تھیں اور یہ صورت پاکستان بننے کے بعد بھی موجود رہی حالانکہ اب اردو رسم الخط جاننے والے افسر آ گءے تھے۔ رومن خط میں

استعمال میں لاتے ہیں۔

K جبکہ ک کے لیے کےQ ق کیو

سے شروع ہوتا ہے

K قصور کے

کا تلفظ لاہ ہی بنتا ہے۔

lah اور کس کا تلفظkas

 

کس اور لاہ پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ یعنی کس کا شہر لاہ کا شہر۔

قصور اگر قصر سے ہوتا تو کیو سے اس کا آغاز ہوتا ناکہ کے سے یہ لفظ تر کیب پاتا۔ زبانوں میں یہ کوئ نئ بات نہیں۔ لفظ غریب کو مفلس کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ اس کے معنی پردیسی کے ہیں۔ گویا غریب لکھ کر مفلس معنی لیے جاتے ہیں۔ اپنی اصل میں یہ گریب ہے۔ گریب کو غلط سمجھا جاءے گا۔ قفلی کو غلط جبکہ قلفی کو درست سمجھا جاتا ہے جبکہ قلفی کوئ لفظ ہی نہیں ہے۔

 

قصر مقامی لفظ نہیں ہے۔ جو پٹھانوں نے شہر آباد کیا وہ موجود قصور ہے۔ ق اور ص دیسی حروف نہیں ہے۔ س دیسی ہے گو یہ آواز عربی اور فارسی میں بھی موجودہ ہے۔ تان سین کو کھنڈروں کی جاگیر نہیں ملی تھی کھنڈروں پر آباد علاقہ تھا۔ اسی طرح حضرت امیر خسرو بھی آباد علاقے میں آءے ہوں گے۔

 

(3)

قصور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کمال چشتی کے جو ٹیلے ہیں یہی پرانا قصور ہے۔ کمال چستی کے حوالہ سے ایک رویت عام ہے کہ راجہ راءے سنگھ سترویں صدی عیسوی میں یہاں کا حاکم تھا۔ وہ ہر دلہن کے ساتھ پہلی رات گزارتا۔ کمال چشتی کی ایک مریدنی جو دلہن تھی ان کے پاس بھاگ آئ اور سارا ماجرا سنایا۔ کمال چشتی نے اپنا پیالہ الٹا کر دیا۔ اس طرح یہ شہر غرق ہو گیا۔ انسانی تاریخ کے حوالہ سے یہ گزرے کل پرسوں کی بات ہے۔ امیر خسرو جو سات سو پہلے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مطابق کھنڈرات اس وقت بھی موجود تھے۔ کمال چشتی کا مزار کھنڈر کے اوپر ہے۔ گویا سترویں صدی عیسوی میں شکرپور تباہ ہوا۔ کھنڈر پر موجود شہر برباد ہوا۔

 

کمال چشتی کی تاریخ موجود نہیں۔ احمد علی لاہوری جو کشف القبور کا علم رکھتے تھے انھوں نے حضرت بلھے شاہ کے متعلق راءے دی کہ یہاں نیک ہستی دفن ہے جبکہ کمال چشتی کے بارے کہا کہ انھیں اس قبر کے بارے کچھ سمجھ میں نہیں آ سکا۔ گویا انھوں نے بات کو گول مول رکھا اور یہ کہنے سے گریز کیا کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔

 

مردہ دفن کرنے کے علاوہ قبر سے چار اور کام بھی لیے جاتے رہے ہیں۔ یہاں کے حالات کبھی اندرونی اور کبھی بیرونی حملوں کی وجہ سے ناسازگار رہے ہیں۔ محلاتی سازشیں لوگوں کا سکون برباد کرتی رہی ہیں۔ ناساز گار حالات کے سبب انھیں مہاجرت اختیار کرنا پڑتی۔ ایسے میں صاحب جاہ اور اہل ثروت اپنی دولت قبر میں دفن کر دیتے اور معاملے کو قسمت کی یاوری پر چھوڑ دیتے۔ 1947 کی مہاجرت میں بھی ایسا ہوا۔ کئ ایک کو موقع مل گیا لیکن جنھیں موقع نہیں ملا ان کا خزانہ ابھی زیر زمین ہے یا کسی اور کا مقدر ٹھہرا۔

 

قبریں دفاع کے کام بھی آئ ہیں۔ اوپر سے دیکھنے میں قبریں ہیں لیکن ان کے اندر سرنگوں کا جال بچھا ہوا ہوتا تھا۔

عہد سلاطین کی اس قسم کی چیزیں ملتی ہیں ممکن ہے یہ سلسلہ پہلے سے رواج رکھتا ہو۔

 

مرشد کے کپڑوں وغیرہ کو دفن کر دیا اور اسے قبر کی شکل دے دی گءی۔ یہ ایک طرح سے مرشد کا احترام رہا ہے۔ اسے روزگار ذریعہ قرار دینا بھی غلط نہ ہو گا۔ اسے اس جگہ پر قبضہ کرنے کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔

چلہ گاہوں

میں کسی بابے کی چھوڑی ہوئ چیز کو دفن کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں وہ ڈھیری قبر ٹھہری ہے۔

 

کمال چشتی کے حوالہ سے مختلف قسم کے قیافے اور مفروضے قاءم کیے جا سکتے ہیں تاہم انھیں حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلا قاضی شعیب الدین صاحب کوئ چیز چھوڑ گیے ہوں اور اسے دفن کر دیا گیا ہو۔ اسے قاضی شعیب الدین صاحب کی چلہ گاہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کمال عرفی نام ہو سکتا ہے یعنی چشتی کا کمال۔ قاضی شعیب الدین صاحب کوئ معمولی شخصیت نہیں تھے۔ ان کا دور راجہ راءے سنگھ سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ تو عہد سلاطین کی بات ہے۔ راجہ راءے سنگھ کے حوالہ سے غرق ہونے والے قصہ کو سچ مانتے ہیں تو یہ کوئ یہاں کہیں اور صاحب کرامت بزرگ موجود ہیں جن کے مقام دفن کی کوئ صاحب کشف ہی خبر دے سکتا ہے۔

 

یہ مقبرہ سڑک سے قریبا پچاس فٹ کی بلندی پر ہے۔ مقبرے تک ایک سو دوسیڑھیاں ہیں۔

شیر شاہ سوری نےٹیلے کاٹ کر یہ سڑک بنوائ تھی۔ اس کے بعد یہ سڑک کئ بار بنی۔ یہ سڑک اصل سڑک سے تقریبا تیس فٹ سے زیادہ بلندی پر ہے۔ اس طرح یہ ٹیلہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ دوسری بار یہ تاریخی ٹیلہ انگریز عہد میں تباہی کا شکار ہوا۔ اسی ٹیلے کو کاٹ کر وکیل خان کا مقبرہ تعمیر ہوا۔ بعد ازاں اس مقبرے سے دفاتر کا کام بھی لیا گیا اور اب یہ میوزیم ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل اور پولیس لاءن بھی ٹیلہ کاٹ کر بنائ گئ ہیں۔ اس کے بعد سڑک کے ساتھ موجود ٹیلوں کی مسماری کا کام شروع ہو گیا۔

 

مزار کمال چشتی سے دوسری طرف والے ٹیلے بلڈوذ کرکے سڑک کے برابر کر دیے گیے ہیں اور یہاں اب دوکانیں ہیں۔ ٹیلے شیر شاہ سوری سے پہلے بھی مسمار ہوءے ہیں لیکن اگلی شفٹ میں دوبارہ ٹیلے بنے ہیں۔ اس حوالہ سے متعلق گفتگو آگے آءے گی۔ انگریز راج میں ٹیلے کاٹ کر

ریلوے لاءن بنائ گئ اس سے بھی پرانی تہذیب کے نشانتات غارت ہوءے۔

Views: 181

Reply to This

Badge

Loading…

Events

© 2025   Created by John Santiago.   Powered by

Badges  |  Report an Issue  |  Terms of Service