High-Tech, High-Touch For Your Higher Education
رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے
رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ نصیب والے اس مہینے میں زاد آخر جمع کرنے کا جتن کرتے ہیں۔ توبہ کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اپنے لیے مغرفت کے طالب ہوتے ہیں۔ بلاشبہ الله بڑا ہی معاف کرنے والا ہے اور وہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔ ۔بندہ بھی الله کی ان حد رحمتوں سے مایوس نہیں ہوتا۔ وہ کوئ لمحہ ضاءع نہیں کرتا۔ جانے کون سا لمحہ قبولیت کا لمحہ ہو اور بخشش اس کا مقدر ٹھہرے۔
ہمارے ہاں رمضان کی آمد کا سبزی منڈی ہو کہ فروٹ منڈی یا بازار‘ ایک ہفتہ پہلے ہی ڈنکا بج جاتا ہے۔ اصل میں یہ مہینہ بچتوں کا مینہ ہے۔ شخص جبری بچت پر مجبور ہوتا ہے۔ کوئ چیز جیب کی دسترس میں نہیں رہتی۔ سنا ہے شیطان اس مہینے قید کر دیا جاتا ہے البتہ سارے فروش آزاد ہی نہیں کھلے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو شاید اشیاء گریب شخص کی اپروچ میں رہتیں۔ شیطان کھلا رہتا اور یہ قید کر دیے جاتے‘ تو زندگی کی بیچارگی کم از کم چار گنا نہ بڑھتی۔ شخص موجودہ صورت سے کہیں زیادہ آسودہ حال ہوتا۔
لوگوں کا خیال ہے ہمارے بااختیار بادشاہ لوگ شیطان کی کمی پوری کرنے کے لیے اور مومنوں کی آزماءش کے لیے انہیں اپنے اشیرباد سے سرفراز کرتے ہیں۔
وہ ایک نہیں مومنوں کی آزمایش کے لیے بہت سارے دروازے کھول دیتے ہیں۔ مثلا عین ہانڈی روٹی کے وقت گیس بند کر دیتے ہیں۔ روزے کی افطاری سے پہلے بجلی کا دروازہ بند کر دیا جاتا۔ ادھیر روزے کی افطاری کا وقت ادھیر گیس کی آمد ہو جاتی ہے جبکہ بجلی اس روایت کی تابع فرمان رہتی ہے۔
استاد نے شاگرد کو کہا اس فقرے کا انگریزی میں جملہ بناؤ: وہ گیا ایسا گیا کہ چلا ہی گیا۔
شاگرد نے کچھ ایسا انگریزی جملہ بنایا: ہی ونٹ ایسا ونٹ کہ بس ونٹ ہی ونٹ۔
بجلی بھی بس ونٹ ہی ونٹ کو اپنا شعار ٹھراتی ہے۔ گیس اور گرمی کی تپش جب کرکر لمبے ہاتھ گلے ملتی ہیں تو بے خبروں کو بھی قیامت یاد آ جاتی ہے۔ کملے لوگ یہ جانتے ہوءے بھی کہ شیطان قید میں ہے شیطان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس مہینے میں شیطان پر لعنتیں انتہائ زیادی اور انصافی کی بات ہے۔ قید میں پڑے شیطان کو کیا معللوم کہ اس کے گندے انڈے بچے اس سے بازی لے گیے ہیں۔ روزوں کے بعد جب وہ رہا ہو گا تو مومنوں سے کہیں بڑھ کر عید کی خوشیاں مناءے گا کہ اس کے بالکوں نے وہ کر دکھایا جو وہ شاید کبھی بھی نہ کر پاتا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گیس کی بندش سے لوگ بازار سے خریداری پر مجبور ہو جاءیں گے۔ اس طرح بادشاہ لوگوں کی رمضانی رحمتیں ان کے کھیسہ مبارک میں بلا تکلف اور بلاتررد بسیرا فرما لیں گی اور الزام اشیاء فروشوں کے سر پر آءے گا اور وہ نہاتے دہوتے عوام کے روبرو رہیں گے۔ لوگ گالیاں دیں گے تو فروشوں کو دیں گے اور وہ عوام کی ہاں میں ہاں ملانے کے قابل رہیں گے۔
رمضان شریف نے دفاتر کی بھی چھٹی حس بیدار کر دی ہے۔ ان کے مروجہ ریٹ سہ گنا ترقی کر گءے ہیں۔ غالبا دفاتر نشین بھی سچے ہیں۔ وہ بھی وہاں ہی سے خریداری کرتے ہیں جہاں سے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ مارکیٹ سے قدم سانجھے کرنے کے لیے وہ بھی امور کے بھاؤ بڑھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کسی کے ہاں تین سو روپیے درجن کیلوں کی فروٹ چارٹ بنانے کا خواب دیکھنا مانع ہو لیکن ان کے ہاں اس کے بغیر بنتی نہیں۔ کیا کریں‘ بیگمی مجبوری ہے۔ بچوں کو کس طرح معلوم ہو گا کہ ان کے ابا گرامی دفتر میں بڑے بااختیار عہدے پر قبضہ فرما ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ملک نفاذ اسلام کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ اس قسم کی سوچ رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ یہ ملک کبھی بھی نفاذ اسلام کے لیے حاصل نہیں کیا گیا۔ ان کے خیال میں اگر میں غلط کہتا ہوں تو ١٩٠٦ سے لے ل کر ١٤ اگست ١٩٤٧ تک مسلم لیگ کی ایک بھی قرارداد نکال کر دکھا دیں‘ میں ان کی فراست کو مان جاؤں گا۔ یہ محض عوامی نعرہ اور عوامی خواہش تھی اور ہے۔ نئ نسل کو شاید معلوم نہیں‘ پرانی نسل کو بتانا چاہیے تحریک نفاذ نظام مصطفے کا کیا حشر ہوا تھا۔ کتنے لوگ حوالاتی ہوءے اور کتنوں کے پاسے سیکے گءے تھے۔
روزوں کے اس بارکت مہینے میں اسلام کو بچ میں لانے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ اسلام فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور فرد کو کسی نے نہیں روکا کہ وہ روزے نہ رکھے یا مسجد میں اپنی ذمےداری پر ترابیاں پڑھنے نہ جاءے۔ سو بار جاءے اور بے شک ساری رات ترابیاں پڑھتا رہے۔
کسی پر کیا احسان ہے‘ مہنگی اشیار نہ خریدی جاءیں۔ روزےدار پانی سے افطاری کرے اور الله کی اس گراں یایاں نعمت کا لاکھ لاکھ ادا شکر کرے۔ رہ گئ بجلی کے باعث پانی نہ ملنے کی بات‘ بجلی والی موٹروں کی کیا ضرورت ہے۔ گھروں میں نلکے لگواءیں۔ بجلی کی محتاجی ختم ہو جاءے گی۔ مہینے میں بیس تیس یونٹ کم استعمال ہوں گے۔ زیادہ یونٹ کے بل آنے کا قرضہ واپڈا بہادر پر رہے گا۔
دو ڈھائ سو روپے کلو والی مہنگی کھجور خریدنے کو کس نے کہا ہے‘ اسی نوے رویے کلو والی کھجور کو کیا ہوا ہے۔ اسے کون سی ماتا نکلی ہوئ ہے بلکہ کھجور خریدنے کی ضرورت ہی کیا ہے دس روپیے کلو والا نمک کس دن کام آءے گا۔ رمضان رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے اور یہ بلا رقم میسر آتی ہیں۔ لوگوں کی نظر رحمتوں اور برکتوں سے ادھر ادھر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی روزہ داری میں کسی ناکسی سطع بر کھوٹ ضرور موجود ہے۔ مہینگائ کا رونا رونے کی بجاءے کھوٹ کی تلاش کہیں اہمیت رکھتی ہے۔
Tags:
© 2025 Created by John Santiago. Powered by