High-Tech, High-Touch For Your Higher Education
خدا کے لیے
ریاست اپنا نظام حکومت چلانے اور اپنی افرادی قوت کی استعداد کار میںمختلف حوالوں اور طریقوں سے اضافے‘ انہیں باہنر کرنے‘ شعور و آگہی سے بہرہ ور کرنے‘ معاشی سیاسی اور سماجی انصاف فاہم کرنے‘ ان کی زندکی کو آسان اور آسودہ بنانے اور صحت مند رکھنے کے لیے آءنی ٹیکس عاءد کرتی ہے۔ اس ضمن میں شخص کی حثیت اس کی پہلی ترجیع رہتی ہے۔ لایعنی غیر ضروری اور غیر متعلقہ ٹیکس عاءد نہیں کرتی تا کہ بے چینی پریشانی اور معاشی حثیت کی کمزوری وقوع میں نہ آءے۔ جءز اور مناسب ٹیکس سے ریاست طریقہ سے ریاستی اداروں کو مضبوط کرتی ہے تاکہ وہ بہتر طور پر لوگوں کی خدمت سر اجام دے سکیں۔
جس ریاست میں معاملہ اس کے بر عکس ہوجاتا ہے وہاں بے شمار خرابی کے رستے کھل جاتے ہیں۔ مثلا
ا۔ لوگوں کا مال جو ٹیکس کے ذریعے حاصل کیا گیا ہوتا ہے ہاؤسز کی تزءین و آرایش پر خرچ ہونے لگتا ہے۔
ب۔ ہاؤسز کا کچن ضرورت سے زیادہ فراخ ہو جاتا ہے۔
ج۔ ہاؤسز کے لوگوں کے پیٹ بھی قابل مذمت حد تک بڑھ جاتے ہیں۔
د۔ ہاؤسز کے حمام گاہوں کا لعنتی خرچہ اداروں کے دیوالییے نکال دیتا ہے۔
ح۔ بے کار اور لاحاصل دوروں پر بلادریغ خرچ کیا جاتا ہے۔
اس طرح اس مقولے کو عملی شکل مل جاتی ہے
“کماءے گی دنیا کھاءیں گے ہم“
٢۔ ہاؤسز کی حیثیت لوگوں کے لیےعلامتی بے معنی غیرموثر اور بے کار ہو جاتی ہے۔
٣۔ ادارے خادم نہیں مخدوم ہو جاتے ہیں۔ وہ صرف اور صرف کار سرکار سر انجام دیتے ہیں۔ عوام کے لیے نہ جاءے ماندن نہ جاءے رفتن باقی رہتا ہے۔
٤۔ ریاستِ یعنی سرکار بہادر کی طرف جانے والے رستے خاردار ہو جاتے ہیں
٥۔ بے تحاشا ٹیکسوں کی حصولی کے باوجود سرکار بہادر کی پوری نہیں پڑتی۔
٦۔ سرکار بہادر کی بے اعتدالی کے باعث اور اداروں کی خودسری اور سرکار کی چمچہ گری کے سبب لوگوں کا طرز زندگی مزاج اور رویے فرعونی ہو جاتے ہیں۔
٧۔ فرد ذات کا قیدی ہو کر رہ جاتا ہے۔
٨۔ آگہی ہولناک تنقید کا نشانہ بنی ہے۔
٩۔ سرکار بہادر اور اس کے گماشتہ اداروں کی عیش کوشی کے باعث قرضوں کی فہرست لمبی ہو جاتی ہے۔ اس طرح عوام کا بال بال قرضوں میں جکڑ جاتا ہے۔ قرض دہندہ کی جی حضوری کٹھور مجبوری بن جاتی ہے۔ یہ تو چند ایک بطور نمونہ تھیں ورنہ قوم کا وجود کہیں دور تک دکھائ نہیں دیتا۔
. ہمارے ہاں مغرب کی طرح کا BA/Bsc رولا ڈالا جاتا رہا ہے۔ کیسی احمقانہ بات ہے۔ مغرب کا سماجی سیاسی اور دفتری سیٹ اپ ہم سے مختلف ہے۔ یہ بھی کہ انگریزی مہبان ہو جانے کی صورت میں ہمارا پہلے ہی ١٧ سال کا BA/Bsc ہے۔ پہلی تک آتے آتے تین سال لگ جاتےہیں۔ انگریزی سے پنگا پڑ جاءے تو سارے مضامین میں کامیابی حاصل کر لینے کے باوجود طالب علم میٹرک بھی نہیں کر پاتا۔ پہلی تک آتے آتے جو تین سال لگ جاتے ہیں کیا وہ تعلیم کے عمل میں داخل نہیں؟ اب تو یوں لگتا ہے طالب علم دوسری تیسری سے بھاگ جاءے گا۔ دوسری کی انگریزی کی کتاب دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ کتاب تو انٹرمیڈیٹ کا طالب علم نہیں پڑھ سکتا پہلی جماعت کا بچہ خاک پڑھے گا۔ یہ قوم کو پڑھائ سے دور رکھنے کے حوالہ سے بہت بڑی سازش ہے۔
جب یہاں ادارے مضبوط ہوں گے۔ کاروبار چل رہا ہو گا۔ روٹی پیٹ بھر ملتی ہو گی تو کون مغرب میں جا کر گوروں کے کتے نہلانا (ڈی سی ڈوگ کلینر) پسند کرے گا۔ یہ بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے کہ مغرب کے لوگ ہمارے لوگوں سے زیادہ ذہین اور محنتی ہیں۔ ہمارے لوگ مغرب والوں سے بدرجہا ذہین اور محنتی ہیں۔ میری اس بات کا واضع ثبوت یہ ہے کہ کوئ بھی بدیسی چیز آتی ہے ایک کیا کئ ان کی نقول مارکیٹ میں آ جاتی ہیں۔ بدیسی اشیاء سے سستی اور کارگزری میں بہتر ہوتی ہیں۔ غور کرنے پر معلوم پڑتا ہے کہ یہ بدیسی نہیں دیسی ہے۔ ان نقول کے تیار کرنے والے شکاگو یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نہیں ہوتے سکے ان پڑھ ہوتے ہیں۔
ہماری مکتب سے منسک نسل کی کیا بات ہے بس اسے کمبخت انگریزی لے بیٹھی ہے۔ وہ بہتر اور کم وقت میں اچھا رزلٹ دے سکتی ہے۔
خدا کے لیے
اس قوم پر رحم کیا جاءے اور اس کے وساءل عیاشی اور بدمعاشی میں نہ اڑاءیں۔
مغرب کے سولہ سالہ بی اے کےچکر میں دو سال کھوہ کھاتے میں نہ ڈالے جاءیں۔
اس قوم کی انگریزی سے جان چھڑاءیں۔
تعلیم کو بیوپاروں کے ہاتھ میں نہ دیں۔
اداروں کو مخدوم نہیں عوام کا خادم بناءیں۔
ادھار کی دوکانداری بند کریں۔
باور رہے تاج تخت اور وقت کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ وقت کے لیے کسی کواوپر لانا اور بلندی کو زمین بوس کرنا مشکل نہیں۔ اپنے سے پہلوں کے برے حشر کو نظر میں رکھیں۔
Tags:
© 2025 Created by John Santiago. Powered by