High-Tech, High-Touch For Your Higher Education
مساءل جمہوریت اور ملکی آءین کی حیثیت
Maqalaat:
Maqsood hasni
Tadveen-o-Paish'kash:
Prof. Mohammad abdulla Qazi (PhD)
Principal, Govt. College, Bahawal'nagar
Pakistan
عصر جدید کے تاریخی اور سیاسی تناظر میں لکھے گیے مسٹر اردو پروفیسر مقصود حسنی کے بارہ مقالات
کیا مساءل کا حل جمہوریت میں ہے
مولانا فضل الرحمن دنیا ٹی وی پر بڑی دھواںدار تقریر فرما رہے تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس میں دھواں اپنی انتہاؤں پر تھا۔ خیر دھار بھی مفقود نہ تھی۔ مولانا ہو کر بھی جمہوریت کی حمایت فرما رہے تھے۔ جمہوریت کیا ہے‘ محض افراد کا کم یا زیادہ ہونا۔ اگر افراد کا زیادہ ہونا درستی اور حق کا معیار ہے تو کوئ نبی اور شہید حق پر نہیں ٹہرتا۔ ساری دنیا یہ کہہ دے کہ سورج شمال سے نکلتا ہے تو بھی اسے سچ حق اور درست نہیں کہا جا سکتا۔ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے یہی سچ حق اور درست ہے۔ سچ حق اور درست نہ اس سے زیادہ اور نہ کم ہے۔ اس قماش کی جمہوریت امریکہ وغیرہ کے لیے سچ حق اور درست ہو سکتی ہے لیکن سچ حق اور درست کا اس سے مختلف معیار رکھنے والوں کے یہ وارہ کی چیز نیں ہے۔
میں نے کئ الیکشن بطور پریذڈنگ افسر ڈیوٹی سرانجام دی ہے ہر ڈیوٹی میرے شکم ناہنجار کی مجبوری تھی ۔ ووٹ ڈالنے کے لیے آنے والوں میں زندہ لاشوں کے بھی ووٹ کاسٹ ہوءے۔ خریدے گءے ووٹ ڈالواءے گءے۔ چوہدری کے گولوں کے لاءے گءے ووٹ کاسٹ کروانا پڑے۔ گویا پولنگ اسٹیشن بکرا منڈی یا پھر چنڈوخانے رہے ہیں۔ بکرا منڈی یا پھر چنڈوخانے اگر حق اور سچ کا پیمانہ ہیں تو ترقی بہبود بہتری اور خیر کے شبد منہ سے نہ نکا لے جا۔ءیں۔ جمہوریت حق اور سچ کے منہ پر غلاظت ملنے کے مترادف چیز ہے۔ اسے حق اور سچ ماننا انسان اور انسانی اقدار کے ساتھ کٹھور ظلم اور ناانصافی ہے۔ الله جانے مولانا صاحبان چھوٹی اور بڑی برائ کے کیوں قاءل ہو گیے ہیں۔ برای چھوٹی ہو یا بڑی اس کاساتھ دینا حمایت کرنا یا کسی بھی حوالہ سے تسلیم کرنا خرابی ظلم اور ناانصافی کے لیے دروازہ کھولنا ہے۔
مولانا صاحب کے نزدیک جاگیردار اور سرمایہ دار استعمار کی باقیات ہیں لہذا غریوں کو میدان میں لایا جاءے۔ یہ سو فیصد درست ہے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار استعمار کی باقیات ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ غریب طبقہ خوشحالی لا سکتا ہے۔ یہ طبقہ اگر اقتدار میں آ کیا تو سب سے پہلے اپنا پیٹ بھرے گا اس کے بعد بھی اپنا ہی پیٹ بھرے گا اور پھر اپنوں کا پیٹ بھرے گا۔ دوسری بات یہ کہ جاگیردار اور سرمایہ دار ان کے پاؤں زمین پر آنے دے گا؟! نہیں‘ بالکل نہیں۔ خربوزہ اوپر ہو یا نیچے’ چھری کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ کٹنا اسے ہی پڑے گا۔
بہتری اور خوشحالی کی توقع ایماندار اور صاحب تقوی لوگوں سے کی جا سکتی ہے۔ دوسرا زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق لوگوں کو اقتدار میں لایا جاءے۔ مثلا صحت کی منسٹری ڈاکٹر ہی بہتر طور پر چلا سکتا ہے۔ ایجوکیشن منسٹری‘ تعلیم سے متعلق لوگوں کے حوالے کی جاءے۔ اسی طرحمولانا صاحب کے نزدیک جاگیردار اور سرمایہ دار استعمار کی باقیات ہیں لہذا غریوں کو میدان میں لایا جاءے۔ یہ سو فیصد درست ہے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار استعمار کی باقیات ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ غریب طبقہ خوشحالی لا سکتا ہے۔ یہ طبقہ اگر اقتدار میں آ کیا تو سب سے پہلے اپنا پیٹ بھرے گا اس کے بعد بھی اپنا ہی پیٹ بھرے گا اور پھر اپنوں کا پیٹ بھرے گا۔ دوسری بات یہ کہ جاگیردار اور سرمایہ دار ان کے پاؤں زمین پر آنے دے گا؟! نہیں‘ بالکل نہیں۔ خربوزہ اوپر ہو یا نیچے’ چھری کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ کٹنا اسے ہی پڑے گا۔
بہتری اور خوشحالی کی توقع ایماندار اور صاحب تقوی لوگوں سے کی جا سکتی ہے۔ دوسرا زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق لوگوں کو اقتدار میں لایا جاءے۔ مثلا صحت کی منسٹری ڈاکٹر ہی بہتر طور پر چلا سکتا ہے۔ ایجوکیشن منسٹری‘ تعلیم سے متعلق لوگوں کے حوالے کی جاءے۔ اسی طرح دوسرے شعبے متعلق لوگوں کے سپرد کءے جاءیں تا کہ غیر متعلق لوگوں کی لا علمی سے کوئ فاءدہ نہ اٹھا سکے۔
کام کا آغاز پنجاب سے کیا جاءے جہاں ان لوگوں نے اندھیر مچا رکھا ہے۔ یہ کلونجی یا شہد نہیں ہیں۔ الله ان کی کارستانیوں سے ویری دشمن کو بھی محفوظ رکھے۔ شیر‘ شیر کیوں ہے‘ اس لیے کہ ہاتھی گھاس خور ہے۔ منشی ہاؤس کے عوامی خادم‘ مخدوم کیوں ہیں کیونکہ وزرا اور مشیر فاءل ورک سے نابلد ہیں۔ پنجاب کے اعلی شکشا منشی کی آڑھٹ سے متعلق ایک واقعہ یاد آ گیا ایک صاحب نے اپنے تبادلے کے لیے درخواست گزاری۔ درخواست کے ساتھ علالت نامہ‘ سی ایم ڈاریکٹو اور منسٹر ایجوکیشن کی سفارش بھی تھی۔ یہی نہیں درخواست بابائ تھی۔ اس کے باوجود درخواست نامراد رہی کیونکہ ان سے بڑا بابائ آڑے آگیا۔ فاءل غاءب کر دی گئ تھی۔ وٹک کے بعد درخواست اعلی شکشا منشی کے پاس کانی گنجی ہو کر پہنچی۔ کانی گنجی درخواست پر کیا ہو سکتاہے۔اسی حوالہ سے کسی نے کیا خوب کہا ہے:
میرا ڈھولن ماہی اک پاسے بابے دی بابائ اک پاسے
پارلیمان قانون بنانے کے لیے ہوتی ہے لیکن یہاں آج تک ایک قانون نہیں بن سکا۔ مارشل لا ختم ہو کر بھی ختم نہیں ہو سکا۔ مارشل لا آرڈینس آج بھی قانون کے درجے پر قاءز ہیں۔ کسی الہامی کتاب کے ضابطے کو کوئ حثیت حاصل نہیں ویسے اس ملک کا نام نامی اسم گرامی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن اسلام ذاتی معاملہ سے زیادہ حثیت کا حامل نہیں۔
ایک ایسی کونسل تشکیل دی جاءے جو تعلیم یافتہ ہو اور اس کی ڈگریاں جعلی نہ ہوں‘ ایمانداری عوامی حلقوں میں معروف ہو اور کسی قسم کے دباؤ کے زیر اثر نہ ہو۔ محمودوایاز کا عملی طور پر ایک صف میں کھڑاکرنا یا ہونا آج کی پہلی اور آخری ضرورت ہے۔ یہ کیا ہوا ایک طرف دولت کا شمار نہیں دوسری طرف دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ جرم کے معاملہ میں کسی کو بڑا یا طاقتور ہونے کے سبب چھوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ امریکی صدر کی اہلیت کے حوالہ سے طلبی تھی وہاں چھوٹ کے حوالہ سے کوئ بات نہیں اٹھی۔ ہم امریکی جمہوریت کے بندے ہیں اس حوالہ سے ہمارے ہاں کوئ عملی یا زبانی صورت مجود نہیں۔ جمہوریت کا دوہرا معیار لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ کونسل پارلیمان کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں سے نماءندے منتخب کرے۔ موجودہ سیاسی نماءندوں نے اپنی اور اپنے سیاسی نظام کی ایمانداری کی قلعی کھول دی ہے لہذا اس پر گفتگو کرنا معنویت سے تہی ہے۔
موجودہ سیاسی نماءندے جو بے پناہ عوامی دولت کے مالک و وارث ہیں اگر پاکستان اور اس کے عوام کےاتنے ہی خیر خواہ ہیں تو ان کی کی بہبود اور بہتری کے لیے اپنی دولت بیرونی قرض چکانے کے لیے پیش کیوں نہیں کر دیتے
http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/19/
کیا ملک کا آءین معطل یا چیلنج ہو چکا ہے؟
زندگی کا کمزور سے کمزور حوالہ لایعنی اور معنویت سے تہی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات وہی حوالہ مضبوط حوالوں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور اس کے بغیر بن نہیں پاتی۔ انسان کو اس ذیل میں انتہائ محتاط روی سے کام لینا چاہیے ورنہ وقت گزر جانے کے بعد بےبسی اور بےچارگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ ہم ١٨١٢ سے آج تک مغرب کے قدموں پر قدم رکھتے چلے آ رہے ہیں۔ کیا ملا ہے‘ ذلت وخواری! ہاں دھرتی ماں کے غداروں دلالوں اور مغرب کے جھولی چکوں کے تب سے وارے نیارے ہیں۔
پاکستان کی تشکیل میں لوگوں نے لہو کی ندیاں بہا دیں۔ ان بےچاروں کا خیال تھا کہ پاکستان بنے کے بعد ذلت وخواری سے نجات حاصل کر لیں گے۔ ان کی آنے والی نسل سکھ اور چین کی گزارے گی معاملہ ان کی سوچ کے برعکس ہوا۔ مغرب کے گماشتے پاکستان کی قسمت کے مالک و وارث بن بیٹھے۔ مغرب کی پیروی میں ترقی خیال کی گئ اور کی جا رہی ہے۔ قوم کو طے شدہ قومی زبان تک میسر نہیں آ سکی۔ قوموں کی ترقی میں زبان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ انگریزی بطور لازمی مضمون پڑھائ جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر پڑھاکو نے امریکہ جا کر نوکری کرنی ہو ورنہ بازار میں اس زبان کو رائ بھر حیثیت حاصل نہیں۔ سارے مضامین پاس کرکے بھی کامیابی ممکن نہیں جب تک انگریزی میں کامیابی حاصل نہیں ہو جاتی کامیابی کا منہ یکھنا نصیب نیہں ہوتا۔
انگریزی ہی مغرب کی عطا نہیں‘ جمہوریت بھی خانہ خرابی میں بےمثل کردار ادا کر رہی ہے
اگر جمہوریت ہی سچ کا معیار ہے تو کوئ نبی حق پر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اکثریت انبیاء کرام کے خلاف تھی۔ لاکھ ڈیڑھ لاکھ ووٹوں میں سے بیس ہزار چار سو کچھ ووٹ حاصل کرنے والا علاقے کا نماءیدہ قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ وہ بیس ہزار چار سو کچھ لوگوں کا نماءیدہ ہوتا ہے۔ یہ کس طرح کا طرز حکومت ہےجو بھاری اکثریت کے مسترد کر دینے کے باوجود علاقے کا متفقہ لیڈر ٹھرتا ہے۔ گویا جو اسے لیڈر تسلیم نہیں کر رہے ہوتے جمہوریت اسے ان کا لیڈر تصور کرتی ہے۔ یہ اندھیر نہیں تو اور کیا ہے!
میں نے اپنے کسی مضمون میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کا آءین معطل یا چیلنج ہو چکا ہے لیکن میری بات پر غور نہیں کیا گیا۔ گویا یہ ملک معطل یا چیلنج آءین کے باوجود چل رہا ہے۔ عدلیہ نے صرف اور صرف اپنی توہیں کی پی ایم کو سزا دی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بقول پی ایم انھوں نے عدلیہ کا حکم نہ مان کر اءین کی پاسداری کی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو عدلیہ نے آءین شکنی سے کام نہیں لیا آخر اس نے ایسا حکم کیوں دیا جس کی آءین اجازت نہیں دیتا۔ اگر یہ آءین کے عین مطابق ہے تو اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث اسمبلیاں فارغ نہیں ہو گیں۔ یہ معاملہ طے ہوءے بغیر دونوں اداروں کا کام جاری رکھنا آتے وقتوں کے لوگوں کے لیے بہت بڑا لطیفہ ہو گا جب کہ آج کے زندہ لوگوں پرزبردستی کے مترادف ہو گا۔ اگرچہ آج کا ہر گزرتا لمحہ زور زبردستی کا نمونہ ہے۔ لوگ بھوک پیاس اور اندھیروں میں دن رات بسر کر رہے ہیں۔ عدلیہ پر سخت لفظوں کی گرفت اس کے کردار کو مشکوک بنا رہی ہے۔
یہ اصول صدیوں پہلے سے طے پا گیا ہے کہ لوگ ملک یعنی حاکم
کے قدموں پر چلتے ہیں۔ کسی بھی الیکشن لڑنے والے کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ ملک کا شہری ہو۔ اگر اسے مکمل شہری حقوق حاصل نہیں ہیں تو وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔ کوئ بھی سیاسی عہدے دار‘ عہدے دار بعد میں ہوتا ہے پہلے شہری ہے۔ شہریت اس سے چھین لیں وہ سیاسی عہدے دار نہیں رہتا۔ اگر وہ خرابی کرتا ہے تو اسے سیاسی عہدے دار ہونے کے باعث چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ حقوق کی حصولی کے ساتھ ساتھ اسے بطور شہری اپنے فراءض بھی ادا کرنا ہوتے ہیں۔ یہ تو کوئ بات نہ ہوئ کہ وہ حقوق گرہ میں ڈالے اور اپنے فراءض کوڑادان میں ڈال دے۔
توہین عدالت کی سزا‘ دراصل کسی جج جو شخص بھی ہوتا ہے کی توہین کی سزا نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق عدالت کے حکم یا فیصلے سے متعلق ہے۔ ہر حکم یا فیصلہ ملکی قانون سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ گویا توہین عدالت کی سزا ملکی قانون سے انحراف یا لاپرواہی یا اس سے بالاتر ہونے کے زعم کی ملتی ہے۔ توہین عدالت کی سزا اس امر کی جانب اشارہ ہوتا ہے کہ قانون ہر کسی سے اور ہر سطع پر بالاتر ہوتا ہے۔ وہ قانون غلط ہے یا صیحح‘ اس کا ذمہ دار جج نہیں ہوتا اور ناہی کسی کو سزا دینے کا تعلق جج کی پسند ناپسند یا انا سے نتھی کیا جا سکتا ہے۔ وہ قانون کی تشریح وتفہیم اور اس حوالہ سے موجود شواہد کے مطابق قانون کی بالادستی قاءم کرتا ہے۔ بات نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم ہوتی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ملک کے قانون کو دانستہ نہ ماننے کی سزا دی ہے۔ اس سزا پر جلوس نکلے ہیں۔ جلوس میں شامل لوگ کرایے کے ٹٹو ہوں یا قانون سے ناواقف یا دھڑا کٹنے والے ہوں یا کسی اور قماش کے‘ جلوس تو نکلے ہیں جو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے عدم اعتماد کا ثبوت ہے۔ ان ہی لوگوں کے حوالہ سے نماءندے چنے گءے اور ان نماءندوں نے ملک کا آءین بنایا۔ یہ عدلیہ کے خلاف جلوس نہیں نکلے بلکہ اس آءین کے خلاف نکلے ہیں جو عوامی نماءندوں نے اسملی کی نشتوں پر بیٹھ کر بنایا ہے۔
وزیراعظم نے اس قانون کو غلط اور آءین سے ہٹ کر سمجھتے ہوءے تسلیم نہیں کیا۔ جلوس نکالنے والے بھی اصولی طور تاءید کر رہے ہیں۔ عدلیہ نے اسے درست سمجھتے ہوءے سزا سنائ۔ بہت سے لوگ عدلیہ کے فیصلے کودرست مان رہے ہیں۔
مجموعی ووٹوں میں سے بیس ہزاریا عوامی نماہندہ ٹھرتا ہے تو آٹے میں نمک لوگوں نے جلوس نکال کر ثابت کر دیا ہے کہ جس قانون کے تحت وزیر اعظم سزا یافہ قرار پاءے ہیں وہ درست نہیں۔ اکثریت جمہوریت کا اصول ہے ظفر کے شعر کو غالب کے کھاتے میں ڈال رہی ہےتو اسے تسلیم نہ کرنا جمہور کی توہین کے مترادف ہے۔ معاملے کو جس بھی زاویہ سے ملاحظہ کریں گے تو یہی بات سامنے آءے گی کہ آءین معطل یا چیلنج ہو چکا ہے۔ اب کوئ بھی ادارہ جو اقدام لے گا کسی قانون اورضابطے میں نہیں آءے گا بلکہ غیر آءنی ہو گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کام سے پہلے آءین کی بحالی کا بندوبست کیا جاءے۔
اس معاملے کو کمزور حوالہ سمجھتے ہوءے نظر انداز کیا گیا تو پہلے فوج آءین کو معطل کرتی رہی ہے آج اسے وزیراعظم عدلہ اور عوام نے معطل یا چیلنج کیا ہے۔ آج اگر میری اس بات پر غور نہ کیا گیا تو آتا کل جب ہم نہیں ہوں گے اس معاملے کے حوالہ سے وزیراعظم عدلیہ اور عوام کو دشنام کرے گا۔ کیوں نہ کرے گا‘ ہماری کور مغزی کا بھگتان تو اسے کرنا پڑے گا۔
http://www.jangforum.com/general-discussion/kya-mula-ka-aein-moat'tal-ya-chailanj-ho-chuka-hai!/
عدلیہ کے وقار کی بحالی پہلی اور آخری ضرورت
پارلیمنٹ ہو کہ سپریم کورٹ یا کوئ اور ادارہ کارگزاری کے حوالہ سےآءین کے داءرہ سے ایک انچ بھی ادھر یا ادھر نہیں ہو سکتا۔ آءین سے انحراف یا اس سے تجاوز کسی بھی صورت میں قابل معافی جرم نہیں۔ آءین سے انحراف یا اس سے تجاوز کرنے والا کسی شخص یا ادارے کا مجرم نہیں ریاست اور اس ریاست کے ہر شہری کا مجرم ہوتا۔ ایسے شخص کی سزا موت اور موت کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ سقراط یقینا انسانی تاریخ کا فخر تھا اور اس سے لوگ ہزاروں سال میں جنم لیتے ہیں۔ اس کے بڑا ہونے کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے راہ فرار سے گریز کرتے ہوءے ریاستی آءین کا احترام کیا اور زہر کا جام بخوشی ہونٹوں سے لگا لیا۔ آءین میں کجی تھی جس کے سبب اتنا عظیم شخص مارا گیا اور ریاست اس عظیم شخص سے محروم ہو گءی۔ ان معروضات کا مطلب یہ ہے کہ آءین ہر حوالہ سے معتبر اور پہلی اور آخری ترجیع میں رہتا ہے۔ گویا کوئ بھی آءین سے بالا نہیں ہو سکتا.
کسی کو بھی آءین سے بالا قرار دینے کی صورت میں ریاستی امور کا توازن بگڑ جاتا ہے اور خرابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ من مانی اور بے راہ راوی جگہ پا لیتی ہے۔ من مانی اور بے راہ راوی کے نتیجہ میں ریاست کا وجود مٹ جاتا ہے۔ سقراط نے آءین کا احترام کیا اور موت کو آءین کے مقابل کمتر سمجھا۔ ضروری تھا کھ ریاست کو دوام میسر آتا لیکن سقراط کی موت سے ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور وہ آتے وقتوں میں صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیءے مٹ گءی۔ اس تاریخی مثل سے یہ حقیقت واضع ہوتی ہے کہ آءین میں خرابی تھی اس خرابی نے ریاست سے سقراط چھین کر ریاست کو تہی دامن کر دیا۔ ایسا آءین جو ریاست کو کنگال کر دے سزاءے موت کا مستحق ہوتا ہے۔
پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اس کا آءین یعنی لا الہ الا الله طے پا گیا تھا اور یہ عوامی تاءید و تصدیق کا حامل آءین تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد اس آءین کو کبھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔ اسے زبانی کلا می مقام دیا گیا ہے لیکن عملی طور پر اس کا مذاق اڑیا یے۔ پاکستانی آءین سربراہ ریاست کو فوق الفطرت بنا دیتا ہے۔ سربراہ ریاست اوروں سے بڑھ کر آءین اور قانون کا نمونہ ہوتا ہے۔ اس قدموں کے پر چل کر مشکل سے مشکل گرہیں کھلتی ہیں لیکن ہمارے ہاں سربراہ ریاست کے قدموں پر چلنا ریاست کو زندہ درگور کرنے کے مترادف رہا ہے۔ سربراہ ریاست کچھ بھی کرے آءین اور قانون اس پر گرفت نہیں کر سکتے اگر گرفت کرنے کی حماقت کریں گے تو جان سے جاءیں گے' ایسا ہوتا آیا ہے۔ گویا آءین اور قانون صرف کمزوروں پر گرفت کرتا ہے اور کوئ بڑا اس کا تابع نہیں بلکہ یہ اس کا تابع فرمان ہے۔
چوری نوید کی ہوتی ہے۔ عدالت اسے مجرم ثابت کرتے ہوءے سزا دیتی ہے لیکن سربراہ مملکت اس سزا کو معاف یا اس میں آءینی طور پر کمی کر سکتا ہے. معاف کرے تو نوید کرے سربراہ مملکت کون ہوتا معاف کرنے والا۔ مجرم کو معاف کرنے کا حق کسی اور کو کس طرح اور کس انسانی اصول کے تحت مل سکتا ہے یا ملنا چاہیے۔ گویا وہ عدل کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہو سکتا ہے۔ آءین قانون اور انسانی اصول اور ضابطے اس کے تلوے چٹ ہوتے ہیں۔ وہ منصف سے بڑھ کر مصف ہوتا ہے۔ گویا رحم کے نام پر وہ مجرم کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہوتا ہے۔ جن کا نقصان ہوا ہوتا ہے وہ ان کا بھی سربراہ مملکت ہوتا اور وہ مجرم سے زیادہ رحم کے مستحق ہوتے ہیں۔ وہ کیسا آءین ہے جو کسی بھی حوالہ سےسہی' مجرم کی طرف داری کرتا اوراسے ریلیف دیتا ہے۔ سربراہ مملکت اپنی اصل حقیقت میں سب سے بڑھ کر مصف ہوتا ہے.
سربراہ مملکت ہو یا اتظامیہ کا سربراہ' ریاست کا ووٹر اور شہری بھی ہوتا ہے۔ ریاستی اور انتظامی امور چلانے کے ساتھ ساتھ اسے بطور شہری فراءض ادا کرنا ہوتے ہیں۔ وہ دوسرے شہریوں کی طرح قانون کا پابند ہوتا ہے۔ جرم اس کے لیے بھی جرم ہوتا ہے۔ ووٹر اور شہری کے طور پر دوسروں کے برابر ہوتا ہے یہی اس کی بنیادی پہچان اور شاخت ہوتی ہے۔
وہ کیسا آءین ہے جو جرم کرنے کی صورت میں اسے گرفت سے بالا تر کردیتا ہے بلکہ مجرموں کو معاف کرتا ہے تاکہ وہ جرم کا دھندہ تیس پر رکھیں. وہ ریاست میں ووٹر اور شہری کے طور پر رہنے اور جینے کا حق رکھتا ہے۔ یہ عجب لوجک ہے' قانون سے بالاتر ہو کر بھی ووٹر اور شہری رہتا ہے۔ وہ شہری کے حقوق سے دستبردار نہیں ہوتا۔ وہ اوروں کے مقابل دوہرے حقوق کس کھاتے میں وصولتا ہے۔ وہ ریاست سے سربراہ مملکت یا سربراہ انتظامیہ کا عوضانہ+ سہولیات حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ وہ الله واسطے فراءض انجام نہیں دے رہا ہوتا۔ وہ کیسا آءین ہے جو کام کا عوضانہ+ سہولیات لینے والے کو دوہرے حقوق دیتا ہے۔ انصاف کو ناانصافی میں بدلنے کا حق دیتا۔ ناانصافی کو فروغ دینے والے آءین کا احترام' ناانصافی کو درست تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ ناانصافی کو انصاف نہیں مانو گے تو سولی چڑھو گے۔ اب بات تو اسی طرح سے ہے کہ سیاہ کوسفید مانو یہی سچ ہے اوراس کے علاوہ کچھ بھی سچ نہیں۔
جو آءین عوامی نظریہ پاکستان لاالہ الاالله کے منافی ہے اس کا موت کے خوف سے احترام کیا جا سکتا ہے۔ ایسا آءین دل میں جگہ نہیں بنا سکتا۔ ہمارے ہاں گویا دو الہ وجود رکھتے ہیں۔ دل صرف اور صرف محمد والے الہ کو حقیقی الہ مانتا اور تسلیم کرتا ہے۔ برا سے برا اور حد درجے کا بگڑا آدمی بھی الله ہی کو الہ مانتا ہےاور اسی میں نجات سمجھتا ہے لیکن عملی زندگی میں الہ سربراہ مملکت ہے جوعوامی نظریہ پاکستان لاالہ الاالہ سے مبرا اور بالاتر ہے۔ اس کے کسی غلط فعل پر آءین قانون یا ضابطہ اخلاق گرفت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا. جو اس کے خلاف جاءے گا' موت کو ماسی کہے گا ۔
1973 کے آءین پر اس دور کے عوامی نماءندگان کے دستخط ثبت ہیں۔ عوامی نماءندگان میں مولوی صاحبان بھی شامل تھے۔ یہ آءین بزبان انگریزی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے:
a۔ ان میں کتنے قانون دان تھے
b۔ ان میں کتنے پڑھے لکھے تھے
c۔ ان میں کتنے انگریزی خوان تھے
d۔ ان میں کتنے آءین سازی کا تجربہ رکھتے تھے
ان لوگوں نے ممبری کی خوشی میں آ کر دستخط کر دءیے تھے۔ آج کی اسمبلی پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان کے متعلق سوال اٹھتا ہے:
a۔ ایسے کتنے ہیں جو اس انگریزی نوشتہ آءین کو محض پڑھ سکتے ہیں۔
b۔ ایسے کتنے ہیں جو قانون دان ہیں۔
c۔ ایسے کتنے ہیں جو آءین سازی کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا تو تھانے کا ایس ایچ او مذاق اڑاتا ہے۔
d۔ ایسے کتنے ہیں جو اپنے علاقے کے ووٹرز کی دو تہائ اکثریت رکھتے ہیں
e۔ ایسے کتنے ہیں جو اس آءیں کے مطابق امور نپٹا رہےہیں۔
f۔ زندگی کاایسا کون سا شعبہ ہے جہاں اس آءین کی عمل داری ہے۔
لامحالہ حاکم وقت نے اسے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق بنوایا ہو گا اور اس نے سمجھا ہو گا کہ وہ ہمشہ کے لیے ہے۔ اس طرح اس نے اپنےاوراپنی نسل کے ہاتھ مظبوط کءے ہوں گے لیکن یہاں کوءی ہمشہ کے لیے نہیں ہے۔ ہر کسی کو مرنا ہے۔ کوئ ڈاکٹر حکیم کسی کو موت سے نہیں بچا سکتا۔ موت ایک ٹھوس اور اٹل حقیقت ہے۔
دو باتیں اس ضمن اور کہی جا سکتی ہیں:
ا۔ یہ اس دور کی ضرورتوں کے مطابق بنایا گیا۔ چلو ٹھیک سہی لیکن آج 1973 نہیں' 2012 ہے۔ آج کی ضرورتیں اور زمینی حالات پہلے سے نہیں رہے۔ اس قسم کا آءین کس کام کا جو تفریق کے دروازے کھولتا ہے۔اس تفریق کے سبب اصولی طور پر آءین سربراہ مملکت' سربراہ انتظامیہ اور عدلیہ معطل یا چیلنج ہو چکے ہیں اوران کی بحالی ملک کا سب سے بڑا مسلہ ہے۔ اگر اس حقیقت کے باوجود امور سرانجام پاتے ہیں تو ریاست اور اس کے شہریوں کے ساتھ کھلی اور برسرعام زیادتی کے مترادف ہے۔
ب۔ کہا جا سکتا ہے کہ
ب۔ کہا جا سکتا ہے کہ ساری دنیا میں استثی وغیرہ کا رواج ہے تو اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ ساری دنیا میں سوءر کا گوشت جءز ہے' شراب پرپابندی نہیں' ہم جنسی معیوب نہیں' حرام کاری' حرام کاری نہیں تو یہاں بھی ان چیزوں کو قانونی قرار دے دیا جانا چاہیے۔
اگر یہ سب چلنا تھا تو تقسیم ہند کی ضرورت ہی کیا تھی?
نظریہ پاکستان کو کس کھاتے میں ر کھا جاءے گا?
ساری دنیا نظریہ پاکستان سے متعلق نہیں ہے اور نہ ہی نظریہ پاکستان کے حوالہ سے وجود پذیر ہوئ ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریہ پاکستان کے حوالہ سے آءین بنایا جاءے۔ ورنہ عدلیہ کی اسی طرح تذلیل ہوتی رہے گی۔ ہر بڑا آدمی اس کے احکامات کو اپنے پاؤں کی ایڑ میں رکھے گا۔ اپنے مطلب کے فیصلوں کو درست قرار دے گا اور اس کے برعکس فیصلے لایعنی ٹھریں گے۔ عدلیہ کے احترام میں فرق آنا پوری قوم کو رسوا کرنا ہے۔
عدلیہ کا احترام اور وقار کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدام کرنا اس ریاست کے ہر شہری کا پہلا اور آخری فرض بنتا ہے۔ اگر اس مسلے پر غور نہ کیا گیا تو یہاں جنگل کا قانون بھی باقی نہ رہے گا۔
http://www.jangforum.com/general-discussion/t4139/
خط آءین اور عدم تحفظ کا احساس
ایک عام آدمی نہیں جانتا:
آءین کیا ہے.
کیا آءین کے مطابق ہے اور کیا آءین کے مطابق نہیں ہے۔
ایک عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ حکومت امور حیات آءین کے اندر رہ کر طے پاتے ہیں۔ عدلیہ سے متعلق لوگ آءین کی تشریح آءین کو عملی شکل دینے اور عمل درآمد کرنے والے ہیں۔
موجودہ حالات اور انتہائ ذمہ دار لوگوں کے بیانات نے لوگوں کو گڑبڑا دیا ہے۔ غلط اور صحیح کی پہچان کرنا ان کے لیے مسلہ بن گیا۔ ان بیانات کے حوالہ سے پڑھے لکھے لوگ بھی پڑھنے پڑ گءے ہیں اور وہ یہ طے کرنے سے قاصر و عاجز ہیں کہ کس کو غلط اور کس کو صحیح کہا جاءے۔
حکومت کو غلط قرار دیتے ہیں تو زندگی بھر تازہ ہوا کو ترس جاءیں گے۔ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو گی ان کے گھر والے بھی عذاب میں مبتلا ہو جاءیں گے۔ حکومت کو غلط کہنا آءین کے ساتھ غداری قرار پاءے گا۔
عدلیہ کو غلط کہتے ہیں تو توہین عدالت کا ارتکاب ہو گا۔
بیک وقت دونوں ٹھیک نہیں ہو سکتے کوئ ایک تو غلط ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے: وزیر اعظم سوءس حکام کوخط لکھ کر آءین توڑنے والوں میں نام نہیں لکھواءیں گے۔
فردوس عاشق کا فرمان ہے: پی پی کا وزیر اعظم آءین توڑنے کا لیبل نہیں لگوا سکتا۔
وزیر اعظم کا موءقف یہ ہے: خط لکھوں تو پھانسی نہیں لکھتا تو چھے ماہ قید.
وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا ہے: ایڈواءس ملے نہ ملے ہمارے کہنے پر خط لکھیں حالانکہ یہ آءین کے خلاف ہے۔
عدلیہ اور حکومتی نقطہ ہاءے نظر ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہی نہیں متصادم بھی ہیں۔ اصل معاملہ ایک طرف ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کی حیثیت دو نمبر ہو گئ ہے جبکہ اصل معاملہ ایک نمبر ہے۔ لگتا ہے اس قسم کی صورت حال پیدا کرکے اصل معاملہ رولے گوے میں ڈالنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ ایک عام آدمی جو آءین سے آشنائ نہیں رکھتا اس قسم کی باتیں سوچ سکتا ہے۔ اسے آءین یا اس کی تشریح وتعبیر سے مطلب نہیں اور ناہی یہ اس کا کام ہے۔ وہ صرف اتنا جانتا ہے معاملے کے حوالہ سے اقدام کیا ہوا ہے۔
اصل معاملہ کے حوالہ سے شہباز شریف کا کہنا ہےکہ وزیر اعظم خط لکھیں اور پیسہ قوم کے حوالے کریں۔
عمران خان کا نقطہ ء نظر یہ ہے کہ گیلانی صدر کی کرپشن بچانے کے لیے عدلیہ کی توہین پر اتر آے ہیں
ایک عا م آدمی کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں اور سب سے پہلے ریاست کے شہری ہیں۔ کسی ریاست کے شہری کوخانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ گناہ گار کوئ بھی ہو گناہ گار ہے اور اسے اس کی بلا تفریق وامتیاز سزا ملنی چاہیے۔ ان کی سوچ اس سے ایک انچ بھی آگے پیچھے نہیں جاتی۔
اگر گناہ یا جرم کے حوالہ سے تفریق وامتیاز کا دروازہ کھول دیا گیا تو آءین قانون اور انصاف کس چڑیا کا نام رہ جاءے گا۔ کیا استثنی کی بات کرنے یا اس کالے قانون کی حمایت کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ آقا کریم نے چوری کی حمایت کرنے والوں کو کیا جواب تھا۔ آءین جو ایسے اشخاص کا ترتیب دیا ہوا ہے جن سے غلطی ناممکن نہیں' آقا کریم کے فرمان گرامی سے بڑھ کر ہے???
لوگوں کے خیال میں تمام انسان برابر ہیں اور سب سے پہلے ریاست کے شہری ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ اسلام میں کوئ بڑا آدمی نہیں۔ ایک عام آدمی حاکم سے دوسرے کرتے کے کپڑے کے متعلق بھرے مجمع میں سوال کر سکتاہے۔ ایک عام آدمی کیا جانے کہ پاکستان کے آءین میں بڑے اور چھوٹے آدمی کی تخصیص موجود ہے۔ چوہدری احمد نثار کا بیان ہے: جج بڑے آدمی کو سامنے کھڑا کرکے انا کی تسکین کرتے ہیں.
وزیر اعظم اور پی پی پی کے ماہرین کی آراء اپنی جگہ اس ذیل میں دیگر لوگ بھی اپنا موءقف رکھتے ہیں۔ مثلا منور حسن کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ وزیر اعظم کو توہین عدالت میں گرفتار کرکے کڑی سزا دے۔
میر عمر کے خیال میں وزیر اعظم کا آءین کی تشریح کرنا قابل مذمت ہے۔
سیاسی مذہبی رہنماؤں اور وکلا کے نزدیک وزیر اعظم نے براہ راست عدلیہ پر وار کیا ہے
آءنی ماہرین کی راءے ہے کہ وزیراعظم کا استدلال درست نہیں۔ خط نہ لکھنا سیاسیی فیصلہ ہے۔
عبدالغفار عزیز کے خیال میں حکمرانوں کو ملکی وقار کی فکر نہیں.
یہ بھی راے ہے کہ مقصد یہ ہے کہ بیرون ملک میں قاءم کرپشن کے مقدمات کھلنے نہ پاءیں۔
وزیر اعظم کے بیان نے واضع کر دیا ہے کہ پاکستان کا سیاسی اسلام وہ اسلام نہیں جو حاکم کو بھی مجرم کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ بھی کہ لوگ نظریہ پاکستان کا تعلق پرانے والے اسلام سے غلط جوڑتے ہیں.
اس نظریے کا حامل اسلام یقینا چودہ سو سال پرانا ہے۔ آج اسلام گوراہاؤس سے سرکاری مہر کے ساتھ نکلتا ہ
عوام پر یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے نظریات بدلیں۔ نءے دور نءے سیاسی اسلام اور رواں حالات کے مطابق اپنی سوچ بناءیں۔ صدیوں پرانی سوچ کے لوگوں کو خسارے کے سوا کچھ میسر نہیں آسکے گا۔ وہ اسلا م اب پرانا ہو گیا ہے۔ آج نءے سیاسی اسلا م کی ترویج میںترقی خیال کی جاتی ہے۔ بدلتے حالات کے مطابق اسلام بھی بدلتے رہنا چاہیے۔ ہمارا بعد والوں کا اسلام موم کی ناک سےمماثل ہے ہر کوئ اسے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق بدل سکتا ہے۔ جب مولوی کا اسلام ایک نہیں تو سیاستداروں کا ایک اسلام کیسے ہو سکتا ہے۔
پرانے اسلام میں کالے سیاہ آزاد غلام کو حاکم وقت سیدنا کہہ کر متعارف کراتا تھا جو چھوٹے بڑے کو ایک صف میں لا کھڑا کرتا تھا ۔مگر آج کمزور اور تکڑا کس طرح برابر ہو سکتے ہیں۔ کار میں بیٹھا اور ٹوٹے جوتے پہن کر پیدل چلنے والا کس طرح برابر ہو سکتے ہیں
نءی سوچ کے مطابق پی ایم صاحب کا کہنا کسی طرح غط نہیں لگتا کہ میں وزیراعظم ہوں چپراسی نہیں۔ یہ دو عہدے ہیں اور برابر کے عہدے نہیں ہیں۔ پی ایم صاحب عدالت میں بطور وزیراعظم پیش ہوءے ہیں بطور شخص نہیں۔
وہ کوئ عام شہری نہیں ہیں ناہی سرکاری نوکر ہیں۔ ایک بڑے آدمی کو عدالت میں طلب کرنے کا مطلب یہ ہےکہ اسے بھی عام لوگوں اور چھوٹے عہدوں کی صف میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔ عدالتی کٹہرے میں چھوٹے عہدوں اور عام آدمیوں کو کھڑا کیا جاتاہے۔ کٹہرے بڑے لوگوں اور بڑے عہدوں کے لیے نہیں ہوتے۔
عام شخص سوچنے پر مجبورہے کہ آءین کون توڑ رہا ہے?
عدلیہ یا حکومت?
سوءس حکام کو عدلیہ خط لکھنے پرمجبور کرکے آءین کی خلاف ورزی تو نہیں کررہی?!
یہ بھی کہ عدلیہ سے متعلق لوگ آءین سے آگاہ نہیں ہیں اگر آگاہ نہیں ہیں توان کا اس شعبےمیں کیا کام ہے?
اگر یہ طے پاتا ہے تو اس کے سارے فیصلے غلط ٹھرتے ہیں۔
اگر حکومت آءین سے تجاوز کر رہی ہے تو اس کا ہر فعل بشمول جملہ معاہدات حرف غلط کی طرح مٹتے ہیں۔ موجود حکومت نءے الیکشن کے انعقاد کی مجاز نہیں رہتی۔ الیکشن کے انعقاد کی کوئ بھی صورت رہے' موجودہ نماءندگان اس میں حصہ لینے کےاہل نہیں رہتے۔
سچی بات تو یہی ہے کہ حکومت اور عدلیہ آءین کے حوالہ سے غیر واضح ہو گءے ہیں۔ لوگ حکومت عدلیہ اور آءین میں سے کس کو درست سمجھیں?! گویا آءین' حکومت اور عدلیہ کے الگ رستوں اور تشریحی اطوار کے حوالہ سے معطل/چیلنج ہو چکا ہے۔
ان دونوں میں سے جو بھی آءین کے خلاف جا رہا ہے اصو لی طور پراس کا کردار معطل/چیلنج ہوچکا ہےچ اور اس کی بحالی کی فوری ضرورت ہے۔
یہ کون طے کرے گا کہ کون آءین کےخلاف جا رہاہ
کہیں نہ کہیں کچھ یا کچھ سے زیادہ غلط ضرورہے جس کے سبب ملک بحرانوں کی گرفت میں رہا ہے۔اس ذیل میں بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔
شاید قصور لوگوں کا ہے جو وہ سوچنے کا کشٹ اٹھاتےہیں حالانکہ انھیںصرف اور صرف روٹی کے وساءل تلاش کرنے میں اپنا وقت صرف کرنا چاہیے۔ پاکستان کا مطلب کیا پہلی نسل کا نعرہ تھا جسے آج وقتی اور جذباتی نعرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
آءین میں کہیں گڑبڑ ہے اور اسے نظرہ پاکستان کی اصل روح لا الہ الا الله کے مطابق ترکیب دینے کی ضرورت ہے۔
حکومت' آءین اور عدلیہ کو اپنی مرضی اور مفادات کے ماتحت رکھ کر کام چلانے کی خوہاں رہی ہے۔ آزاد عدلیہ برسراقتدار طبقے کے وارے کی چیز نہیں ہے۔
لوگ ان سوالوں کا جواب کہاں تلاش کریں۔
کس کے درازے پر دستک دیں۔
اس بات کی پیروی کون کرے کہ دونوں ادارے معطل /چیلنج ہو چکے ہیں۔
عدلیہ کا حکم ریکارڈ میں موجود ہے کہ سوءس حکام کو خط لکھو
وزیر اطلاعات اور پی ایم کا بیان کہ یہ آءین کے منافی ہے زیر پردہ نہیں ہے۔
اسی طرح عوام کی خواہش کہ اصل حقیقت سامنے آنی چاہیے' غلط قرار نہیں دی جا سکتی۔
موجودہ کیفیت نے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ جب اور جہاں بھی عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے خرابی پریشانی بدعنوانی اور اقتصادی ناہمواری کی نت نءی صوتیں پیدا ہوئ ہیں۔
http://urdunetjpn.com/ur/category/maqsood-hasni/page/11/
اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں
یہ حیقیقت ہر قسم کے شک اور شبے سے بالاتر ہے کہ ہر خیر الله کی طرف پھرتی ہے۔ لطف و عطا رحم وکرم درگزر کرنے میں کوئ اس کا ہمسر نہیں۔ الله ہر حال اور ہر حوالہ سے اپنی مخلوق کی بہتری چاہتا ہے۔ انسان کی طرح سرزنش میں جلدباز نہیں۔ وہ بار بار مواقع فرام کرتا ہے۔ وہ ہر سطع پر اپنی بہترین مخلوق یعنی
انسان کی ظفرمندی چاہتا ہے۔ وہ انسان کو آسودگی فراہم کرتا۔ وہ مولوی پنڈت یا پادری نہیں جو معمولی معمولی بات پرکفر کا فتوی صادر کر دیتا ہے۔ وہ تو الله ہے اور اس کی درگزر کے لیے کوئ پیمانہ موجود ہی نہیں۔
انسان کو جو ملتا ہے اس کے اپنے کءے کا ملتا ہے۔انسان اپنے ہاتھوں اپنے لیے آگ جمع کرتا ہے۔ اپنی جمع کی ہوئ آگ میں اس زندگی میں صعوبت اٹھاتا ہے۔ روز حشر جو برحق ہے' میں جلے گا اور جلتا رہے گا۔ یہاں زندگی کے دن مقرر ہیں لیکن بعد از مرگ کی زندگی کے دن کبھی ختم نہ ہونے والے ہیں۔ اس زندگی جمع کءے گءے پھل پھول یہاں آسودگی کا نام پاتے ہیں جبکہ روزحشر اسے جنت کا نام دیا جاءے گا۔ الله اس جمع پونجی کو ستر گنا برکت غطا فرماءے گا اور انسان اپنے اثاثے کے حوالہ سے عیش کی گزارے گا۔ بلکل اسی طرح اپنی جمع کی گئ آگ میں آخرت کی زندگی گزارے گا اور اسے دوزخ کا نام دیا جاءے گا۔ گویا یہاں اپنے کءے کی بھرنی ہے۔ کسی قسم کے جبر یا انتقام کی صورت نہ ہو گی۔ الله بےشک بڑا انصاف کرنے والا ہے۔ جبر یا انتقام اس کی ذات اقدس کو زیب ہی نہیں دیتے
۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جہان میٹھا ہے. سب لوگ مر جاءیں گےاور ہمیں موت نہیں آءے گی یا یہ کہ جو پوچھنے والے ہیں وہ خود حصہ خور ہیں۔ بیمار ہونے کی صورت میں بہترین ڈاکٹروں کی خدمت حاصل کرکے موت سے بچ جاءیں گے۔ غالبا ہمیں یہ غلط فہمی بھی لاحق ہے کہ عذاب وغیرہ کا کوئ چکر ہی نہیں یہ صرف مولوی حضرات اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کے لیے ڈراتے رہتے ہیں۔ ڈرنے کی صرف کمزور طبقے کو ضرورت ہے۔ صاحب اختیار اور آسودہ حال لوگوں کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مذہب وغیرہ کمزور طبقوں کی تسلی وتشفی کے حوالہ سے ضرورت ہے۔ وہ اجر اور ثواب وغیرہ کے حوالہ سے مرنے کے بعد موج میلہ کر لیں گے۔ ان کا کام وعدہ سے چل جاتا لہذا نقد ونقد فقط ان کی اپنی ضرورت ہے۔
ایسے بدعقیدہ لوگوں کے لیے یہاں بھی تاریخ نے ان گنت مثالیں چھوڑی ہیں۔ یہی نہیں' انسانوں کی اس بےراہرو بستی میں آج بھی مثالیں مل جاتی ہیں۔ یہاں ایک صاحب ڈی سی آفس میں چھوٹے موٹے عہدے دار تھے۔ بہت ہی مختصر سے عرصے میں اس نے کام میں مہارت حاصل کر لی۔ پھر کیا تھا' انی ڈال دی. فرعون کی ساری صفات اس میں جمع ہو گءیں۔ منہ میں کتا اور آنکھوں میں سور بسیرا کر گیا۔ اس علاقہ میں شاید ہی اس کے پاءے کا راشی شرابی اور زانی ہو گا۔ اس نے اپنے گھر میں جوءے کا آغاز کیا ۔ اس کے اس کام کو دن دوگنی ترقی ملی۔ دیکھتے دیکھتے اس کے جوءے کے تین اڈے کھل گءے۔ دن دہاڑے گھر میں عورتیں لاتا۔ اسے اتنی بھی حیا نہ آتی کہ گھر میں اس کی دو جوان بیٹیاں بھی ہیں۔
ایک عرصہ تک وہ دوزخ کی آگ جمع کرتا رہا۔ پھر ریورس کا عمل شروع ہوا۔ اس کی دونوں یٹیاں گھر پر منہ کالا کرنے لگیں۔ جب گھر میں آگ لگی تو جھگڑا اور مار پٹائ کا کام شروع ہوا۔ واپسی کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ دونوں کسی کے ساتھ بھاگ گءیں اور اس کا اثرورسوخ کام نہ آ سکا۔ اس کے دونوں بیٹے لفنٹر نکلے۔ اس کی جمع کی ہوئ دولت کو لٹانے لگے۔ وہ ان کے سامنے بھیڑ سے بھی زیادہ کمزور ثابت ہو۔
اس کے تین اپریشن ہوءے۔ حرام کی کمائ سے بناءے گءے تینوں مکان بک گءے۔ دو دوکانیں نیلام ہو گءیں۔ کراءے کی ایک نہایت بوسیدہ سی دوکان میں رہایش پذیر ہوا۔ اب فالج کا اٹیک ہوا ہے۔ کوئ ملنے یا حال احوال پوچھنے تک نہیں آتا عبرت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ یہ آگ اس کی اپنی جمع کی ہوئ ہے۔
الله کی طرف سے بار بار وارننگ آئ ہے لیکن اس نے اس کی کوئ پرواہ نہیں کی۔ معافی کا دروا زہ بند ہو چکا ہے۔ جن پر اس نے ظلم توڑے تھے ان میں سے بہت سارے اس دنیا سے کوچ کر گءے ہیں۔ جو زندہ ہیں وہ اس کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے۔ یہ جہنم دنیا کی ہے لیکن آخرت کا عذاب ابھی باقی ہے۔ یہ محض ایک مثال ہے ایسی مثالیں ہر گلی اور ہر محلے میں موجود ہیں۔ کوئ ان سے عبرت لینے کو تیار نہیں۔
میرا اصرار ہے کہ جنت کے پھل اور پھول انسان کے اپنے جمع کءے ہوں گے۔ دوزخ کی آگ پہلے وہاں موجود نہیں بلک یہ آگ انسان اپنے ساتھ اپنے حوالہ سے لے کر جاءے گا۔ جو شخص آج زندہ ہے زندگی کے ہر لمحے کو غنیمت جانتے ہوءے پھل اور پھول جمکرنے کی سعی کرے۔
مہامنشی ہاؤس پنجاب کا ادنی ملازم بھی دہکتی آگ جمع کر ر ہا ہے اور الزام سیاسی حلقوں پر آ رہا ہے کبھی فوج کو دشنام کیا جاتا ہے۔ میری یہ بات پکی سیاہی سے پتھر کی دیوار پر لکھ دیں اصل فساد اور خرابی کی جڑ یہی لوگ ہیں جب تک ان کا کوئ قبلہ درست کرنے نہیں آ چاتا اس خطہ میں موجود ہر انسان کی زندگی جہنم کی آگ میں جلتی رہے گی۔ ڈینگی ان کے ایک ناخن برابر خطرناک نہیں ہیں۔ الله پناہ' یہ وہ حاویہ ہیں جن کا جانے بائ نیم قرآن مجید مں ذکر کیوں نہیں ہوا۔
http://www.forumpakistan.com/es-azaab-ka-zikr-quran-main-mojoud-nahain-t86096.html#ixzz1tv0A0H5c
امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے
اخباری خبر اگلے روز کل کی بات ہو کر رہ جاتی ہے حالانکہ آتے کل کی خبریں گزرے کل کی بازگشت یا اس کی عملی شکل ہوتی ہیں۔ جو قومیں اپنے گزرے کل کی تلخ یادوں کو بھول جاتی ہیں متواتر اوراوپر تلے نقصان اٹھاتی ہیں۔ ماضی کے مثبت کاموں پر اترانا برا نہیں لیکن موجودہ ناخوشگوار صورت حال کی وجوہ کو گزرے کل کے دامن میں تلاشا جا سکتا ہے۔ بعض حالات کو ہم ناگہانی قرار دے دیتے ہیں لیکن کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا ۔ ناگہانی کا کسی ناکسی سطع پر کوئ ناکوئ اشارہ ماضی کےحالات یا کہی ہوئ کسی بات میں موجود ہوتا ہے.
کشمیر میں قیامت آئ اوراسے بھوکم کا نام دیا گیا۔ کیا یہ بھونچال تھا یا کوئ اور چیز تھی آج تک کسی نے کھوج لگانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
جاپان ہتھیار ڈال چکا تھا اس کے باوجود ایک کے بعد دوسرا بم گرایا گیا' کیوں?!
فساد تو مغرب سے اٹھا تھا وہ بھی برطانیہ کے خلاف۔ اصولا بم مغرب میں گرایا جانا چاہیے لیکن وہاں نہیں گرایا گیا کیوں?
مغرب والے کیوں کا جواب کیوں دیں۔ جواب کبھی مانگا ہی نہیں گیا۔ قتل وغات کا میدان مشرق میں ہی کیوں گرم کیوں ہوتا آیا ہے۔ ہم میں پوچھنے کی جرات ہی نہیں۔ قرض پر چلنے والی دوکان کے مالک کو بولنے یا کسی قسم کے قدم لینے کا حق نہیں ہوتا۔ سر وہی اٹھا سکتا ہے جو اپنی زندگی جی رہا ہو۔ چوری خور قومیں یا ان کے چوری خور لیڈر سکی بھڑک بھی نہیں مار سکتے۔ اس قماش کے لیڈر نیچے سے نکل کر اوپر والے کو مفعول بتاتے ہیں۔ اوپر والا بھی کہتا ہے ہاں ہاں یہی سبق دہراتے جاؤ اور لوگوں کو اندھیروں میں ہی رکھو تا کہ تمہاری چوری کا سلسلہ جاری رہے۔ اس قسم کے لیڈر اپنوں پر چڑھائ کے حوالہ سے شیر ببر ہوتے ہیں۔ یہی نہیں وہ قرب و جوار کی قوموں کی غلطیاں چن چن کر سامنے لاتے رہتے ہیں تاکہ ان کے کوچج پردہ میں رہیں۔ معاملے کی وجہ بھی اوروں کے سر پر رکھتے ہیں۔ قوم یہ جان نہیں پاتی اصل دشمن تو ان کے اپنے ہی ہیں۔
کچھ خبریں درج کر رہا ہوں جو آج کی نہیں ہیں ہاں آج سے کچھ ہی دن پہلے کی ہیں اور ان کا آتے دنوں سے بڑا گہرا تعلق ہے اور ان خبروں کے حوالہ سے بہت ساری باتوں کا اندزہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایران گیس منصوبہ۔ پاکستان فیصلہ کرنے سے پہلے دوبارہ سوچ لے۔ امریکہ کی پھر دھمکی
اپنی دھمکیوں پر درست وقت پر عمل کریں گے۔ امریکہ
ایران پر ممکنہ حملے کے لیےمکمل تیار ہیں۔ سربراہ امریکی فضاءیہ
چوری خوری: تعلیم کے شعبہ میں برطانیہ کی امداد قابل تحسین ہے۔ صدر زرداری
چند طفل تسلیاں
پاکستان پر پابندیوں کی امریکی دھمکی مسترد. وقت آیا تو نپٹ لیں گے۔ حنا کھر
امریکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ایران گیس منصوبے پر کسی دھمکی میں نہیں آءیں گے۔
وزیر اعظم پاکستان
ایک مردانہ بیان: اٹیمی پاکستان ثابت قدم رہے۔ امریکہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ایرانی صدر
پاکستان امریکہ کی مجبوری
افغانستان سے انخلا کے لیے پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔ امریکی جرنل
افغانستان میں مسمانوں کی مذہبی کتاب قرآن مجید کی گھس بیٹھیوں کے ہاتھوں بے حرمتی ہوئ۔
قندھار۔ امریکی فوجی نے گھروں پر فاءرنگ کرکے عورتوں اور بچوں سمیت سولہ افراد کو ہلاک کر دیا
امریکی فوجیوں میں خودکشی کے رجحان بڑھنے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
پاکستان سے مطلب ہونے کے باوجود امریکہ پاکستان کو گھٹنوں تلے دبا کر رکھ رہا ہے۔ مقروض اور چوری خور ہونے کے باعث دبنا ان کی مجبوری ہے۔ ان حالات میں کوئ کتنا ہی پیروں پر کھڑارہنے کا مشورہ دے کیسے کھڑا رہا جا سکتا ہے۔ وقت پر کیسے نپٹا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے پہلے سے تیاری کی جاتی ہے۔ بھگتنا لیڈروں کا کام نہیں ہوتا وہ تو حملہ آور کے ساتھی بن جاتے ہیں اور اپنی کھال بچا لیتے ہیں کھال عوام کی اترتی ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے. ہمارے لیڈر تو پہلے ہی گورا ہاؤس کے جارب کش ہیں۔ ان سے توقع رکھنے والے احمقوں کے سردار ہیں۔ ایران والوں کو دیکھیں' کن سے خیر کی امید رکھتےہیں۔ وہ جو اپنے ہی دیس باسیوں کے سجن نہیں ہیں کسی اور کے کیا خیرخواہ ہوں گے۔ یہ صرف اور صرف اپنی ذات اور اپنے مفاد سے غرض رکھتے ہیں۔
اوپر تین خبریں ایسی درج کی گئ ہیں جو بڑی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہیں۔ قرآن مجید کی بے حرمتی سےدل دماغ اور جذبات زخمی ہوءے ہیں۔ دوسری طرف یہ خبر خوشی کی ہے:
ا۔ مسلمانوں کو اپنے مسمان لیڈروں کی مسلمانی اورغیرت ایمانی کا اندازہ ہو گیا ہےیا ہو جانا چاہیے۔ یہ بھی پوشیدہ نہیں رہا کہ وہ ان کے کتنے دوست ہیں۔ لوگ جان گءے ہیں کہ یہ اول تا آخر تلوے چٹ ہیں۔ ان سے امید وابستہ رکھنا خودکشی کے مترادف ہے۔
ب۔ بزدل اور ناکام لوگ ہی اس قسم کی حرکتوں پر اترتے ہیں۔ یہ دراصل ان کی شرمناک ناکامی کا اعلان ہے.
ج۔ خطہ کے ممالک کو ذاتی چوکسی سے کام لینا پڑے گا۔ یہاں کے لیڈروں پر اعتماد موت کو ماسی کہنےکے مترادف ہو گا۔
د۔ پاکستان کے لوگوں کو بھوک پیاس اور موت سے متھا لگانے کے لیےتیاررہنا ہو گا۔ ان کے لیڈر کسی موڑ پر بھی زخموں پر مرہم نہیں رکھیں گے بلکہ دانت نکال کر دکھا دیں گے۔
امریکی فوجیوں میں خود کشی کا رجحاں بڑھنا اور کسی فوجی کا بلاوجہ فاءرنگ کرکے عورتوں اور بچوں سمیت سولہ لوگوں کو موت ے گھاٹ اتار دینا اورمعاملےکی تحقیق امریکہ کا ہاتہ میں لے لینا خوش آءند بات ہے۔ جب بھی انصاف کے ضمن میں ڈنڈی ماری جاتی ہے' سمجھ لو وقت پورا ہو گیا ہے۔ بےانصاف قومیں دنیا کے نقشے پر زیادہ دیر تک نہیں رہتیں' مٹ جاتی ہیں۔ امریکہ جس فوج کے بل بوتے پر دنیا پر نمبر داری کر رہا ہے نفسیاتی طور پر مریض ہو گئ ہے۔
جب بات بس سے باہر نکل جاءے تو شخص اپنی ذات سے جنگ پر اتر آتا ہے اور اس کے نتیجہ میں خود کشی پر اتر آتا ہے۔ کمزوروں کی جان کے درپے ہو جاتا ہے. ۔جنجھلاہٹ خوف غصہ اکتاہٹ تواتر وغیرہ کا کچھ بھی نتیجہ برامد ہو سکتا ہے۔ امریکی فوجی خود کو دوہرے حصار میں بند محسوس کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جبرکا شکار ہیں۔ انسان ایک حد تک جبرکی حالت میں رہ سکتا ہے. جب معاملہ حد تجاوز کرتا ہے توخوداذیتی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ بغاوت اور خود سری راہ پا جاتی ہے۔ بلاشبہ تھپڑمارنے والا بالا دست ہوتا ہے لیکن انرجی تپھڑ مارنے والے کی بھی خرچ ہوتی ہے۔ غرض ان خبروں کے حوالہ سے یہ کہنا لایعنی نہیں لگتاکہ امریکی فوج نفسیاتی امراض کا شکار ہو گئ ہے۔ پاگل کتا جہاں اوروں کے لیے خطرناک ہوتا ہے وہاں گھروالوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوتا۔
وقت دیکھ لےگا انہی پاگل کتوں کے ہاتھوں خود ان کے لیڈر معاشرے کےلوگ ان کے گھر والے گولے اور گولیاں کھاءیں گے۔ پاگل کتے کی موت مریں گے۔
دوسری طرف جن کے بچے عورتیں اور مرد موت کے گھاٹ اترے ہیں ان کے دلوں میں نفرت کی چنگاریاں مزید شدت اختیار کریں گی۔ ردعمل میں اضافہ ہو گا اور یہ اضافہ امریکہ اور اس کی فوج کےلیے کسی طرح صحت مند ثابت نہیں ہو گا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے پتا نہیں ایسے کتنے واقعے ہوتے ہوں گے لیکن منظر عام پر نہیں آ رہے۔ اب نفرت اور جنون کے درمیان جنگ ہے اس جنگ میں امریکہ کی شکست ہو گی۔ علاقے کے لوگ آزادی اور نفرت کی لڑائ لڑیں گے جبکہ امریکی فوج کے پاس جنگ لڑنے کی کوئ وجہ موجود نہیں۔ موجودہ حالات میں جنگ کا پانسہ پلٹ چکاہے۔
امریکی قیادت پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کا نفسیاتی معالجہ کرواءیں تاکہ امریکی شہری ان کے دست شر سے محفوظ ہو جاءیں۔ مظلوم قوموں کو نوید ہو کہ قدرت کے کلسٹر بموں کی ان کے اپنے پاگل فوجیوں کے ہاتھوں بڑی خوفناک بارش ہونےوالی ہے.
بوڑھا اور کمزور ہونے کے سبب میں آتے وقتوں کا یہ منظر شاید نہ دیکھ سکوں لیکن زندہ بچ رہنے والے ضرور دیکھیں گے۔ امریکی فوجی اپنے لیڈروں اور امریکی شہریوں سے سکندر اعظم کے حشر سے بھی بدتر حشر کرنے کی سطع پر آ رہے ہیں۔ امریکی لیڈروں کی حد سے بڑی ہٹ دھرمی خود ان کے اپنے پاؤں کی زنجیر بنتی چلی جا رہی ہے۔ وقت ہے کہ گزرا جا رہا ہے۔ امریکی لیڈر اپنی آتی نسلوں کی راہ میں مصاءب کےکانٹے بن رہے ہیں حالانکہ لوگ اپنی نسلوں کے لیے بیرون ملک دوستیوں کے دروازے کھولتے ہیں۔
امریکی عوام پر لازم آتا ہے کہ وہ طاقت کی غلط فہمی کے حصار کو توڑ کر اصل صورت حال کا تجزیہ کریں اور دیکھں کہ ان کے لیڈر انھیں کس نفرت کے جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔
قانون ضابطے اور نورا گیم
اشفاق کی کل برات جانا تھی کہ اس کی ہمشیرہ کا سسر چل بسا۔ اشفاق کو اس کی اس ناشایستہ حرکت پر بڑا غصہ آیا۔ جل کر بولا چاچے کو جیتے جی چھیتیاں رہی ہیں اب مرنے کے معاملہ میں بھی بڑا جلدباز ثابت ہوا ہے۔ اشفاق کا سٹپٹانا عمل ناجاءز نہیں لگتا لیکن ہونی کے کون سر آ سکتا ہے۔ ہونی ویدی ہے اور ویدی کا ویدان کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ہونے کو تو ہر حال میں ہونا ہی ہوتا ہے تاہم تحمل میانہ روی اور سوچ سمجھ سے کام لینا آتے کل کو آسودہ رکھتا ہے۔ ہما کے سسر نے جانے کتنے دن اس انتہائ اقدام کے لیے سوچا ہو گا۔ اشفاق کا معاملہ بھنگ ہوا اس سے ہما کے سسر کو کیا مطلب ہو سکتا تھا۔
ہر کوئ اپنی ترجیع کو اولیت دیتا ہے‘ دینی بھی چاہیے لیکن فریق ثانی کو تو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ فریق ثانی اگر ماڑا ہے تو وہ مجبوری کے تحت خفیہ ہو سکتا ہے۔ اس میں سچا یا جھوٹا ہونے کا کوئ سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہر کوئ سامنے سے وار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ یہ فطری سی بات ہے کہ دو متصادم فریق طاقت کے حوالہ سے ایک ہی کیلیبر کے نہیں ہو سکتے۔ ایک ہی کیلیبر کے ہونے کی صورت میں ان کے درمیان تصادم نہیں ہو گا۔ ان کا ہر اگلا دن منگل ہو کا اور منگل ناغے کا دن ہوتا ہے۔ طاقت حق پر ہوتی ہے اور اسے اپنا اور اوروں کا غصہ ماڑے پر آتا ہے۔ آنا بھی چاہیے ماڑا ہوتا کس لیے ہے۔
دہشت گردی بلا شبہ پوری انسانیت کے جسم پر ناسور کا درجہ رکھتی ہے اور اس کا ہر حال میں ختم ہونا امن آسودگی اور سکون کے لیے ضروری ہے لیکن یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ دہشت گردی ہے کیا اور امریکہ کس قسم کی دہشت گردی کے خلاف پاکستان سے یمن تک لڑ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ القاءدہ دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے اور وہ القاءدہ کو نہیں چھوڑے گا۔ جعلی ادویات سے لوگ مرے ہیں اور مرتے رہتے ہیں یہ کاروبار دہشت گردی نہیں ہے؟ اس کے خلاف کیا ہوا اور کیا ہو سکتا ہے‘ سب جانتے ہیں۔ جعلی سپرے خریدا گیا معاملہ کورٹ کچہری گیا‘ کیا ہوا۔۔۔۔۔ سب جانتے ہیں‘ کچھ بھی نہیں۔ ڈینگی نے تن مچاءے رکھی‘ آتے موسم میں کیا گل کھل سکتا ہے کوئ پوشیدہ بات نہیں۔ مہامنشی‘ جیون دان منشی‘ اعلی شکشا منشی‘ منشی بلدیات وغیرہ کے خلاف کیا ہوا‘ سب جانتے ہیں‘ کچھ بھی نہیں ہوا۔ اگر یہ داخلی کاروباری دہشت گردی ہے اور اس دہشت گردی سے خود پاکستان کو لڑنا ہے تو القاءدہ کس حوالہ سے خارجی دہشت گردی ٹھرتی ہے۔ القاءدہ جانے اور پاکستان جانے‘ یہ کس طرح امریکہ بہادر کی سردردی قرار پاتی ہے۔
اشفاق کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی داخلی بھی ہے اور خارجی بھی۔ اگر طبی امداد باہم کرنے میں محکمہ جیون دان پھرتی دکھاتا اور غفلت سے کام نہ لیتا تو ہو سکتا ہے ہما کا سسر چند روز اور جی لیتا۔ ہما کے سسر کی موت کا مدا خارجی دہشت گردی کے حوالہ سے امریکہ پر بھی نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ وہ صرف اور صرف القاءدہ دہشت گردی کا ٹھکیدار ہے۔ تاہم بقول صدر آصف علی زرداری دنیا کا مستقبل جمہوریت میں ہے۔ ہما کے سسر کی موت کو ایک اکثریت تسلیم کر چکی ہے۔ اس حوالہ سے اسے داخلی یا القاءدہ سے متعلق دہشت گردی نہیں فرض کیا جا سکتا۔ اس نہج کی دہشت گردی کے خلاف کسی قسم کا ایکشن لینا امریکہ کے کھاتے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ سراسر جمہوریت کی تو ہین ہو گی جو اس جمہوری دور میں بہت بڑے جرم کے مترادف ہے۔ غداری کا فتوی بھی صادر ہو سکتا ہے۔
مسجد کی تعمیر کا مہشورہ ہوا۔ گاؤں کے لوگ جمع ہوءے جن میں نورا بھی شامل تھا۔ ہر کسی نے حب توفیق اپنا حصہ لکھوایا۔ ابھی کافی لوگ موجود تھے لکھت پڑھت پر وقت لگ جاتا۔ نورا دھڑلے سے اٹھا اور بولا لکھو میرا پچاس ہزار۔ اس کی اس فراخ دلی پر بڑی جءے جءے کار ہوئ۔ ہر کوئ چوہدری نور محمد صاحب کو جھک جھک کر سلام و پرنام کر رہا تھا۔ مزید اگراہی کی ضرورت ہی نہ تھی لہذا مجلس برخواست ہو گئ۔ اگلی صبح مولوی صاحب چند لوگوں کے ساتھ چوہدری نور محمد صاحب کے در دولت پر جا پہنچے۔ چوہدری نور محمد صاحب بڑی شان سے باہر نکلے۔ مولوی صاحب نے پچاس ہزار رپوؤں کا تقاضا کیا۔ چوہدری نور محمد صاحب بڑی معصومیت سے بولے
"کون سے پچاس ہزار روپیے؟"
"وہی جو آپ نے کل لکھواءے تھے۔"
"وہ دینے بھی تھے؟“ چوہدری نور محمد صاحب نے بڑی حیرت سے پوچھا
"جی ہاں"
"ارے میں تو سمجھا تھا کہ صرف لکھوانے ہیں۔"
اس مثال کے حوالہ سے بھی ہم کسی پر دہشت گردی کا الزام نہیں رکھ سکتے کہ کرنا اور کہنا قطعی دو الگ چیزیں ہیں۔ کاروباری دہشت گردی کے لیے سرکاری پروانے جاری ہوتے ہیں اس لیے جعلی ادویات خوری سے لوگ مرے ہیں تو اس میں کاروباری دہشت گردی کس طرح ثابت ہوتی ہے۔ ایک نمبر کاروبار میں بچت ہی کیا ہوتی ہے۔ لوگ ملاوٹ آمیز غذا کھا کر تل تل مرتے ہیں۔ مرتے تو ہیں نا! یہاں فورا مر گءے۔ ایک دن مرنا تو ہے ہی‘ دو دن پہلے کیا دو دن بعد میں کیا۔ اپنی اصل میں بات تو ایک ہی ہے۔
ادویات لاءسنس کے بغیر تو تیار نہیں ہوئ ہوں گی۔ موت ٹھوس اور اٹل حقیقت ہے لوگ ادویات سے نہ مرتے تواپنی آئ سے اناللله ہو جاتے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وعدہ باز بہت کچھ کہتے آءے ہیں۔ اقتدار میں آکر انھوں نے عوام کے لیے کبھی کچھ کیا ہے۔ نہیں۔ ان کے نہ کرنے کے خلاف کبھی کوئ قابل ریکارڈ رولا پڑا ہےِ؟ نہیں‘ بالکل نہیں۔ تو اب کیوں شور مچایا جا رہا۔ سرکاری معاملہ ہے۔ این آر او کے تحت اس مدے پر مٹی ڈالنا ہی جاءز اور مناسب بات لگتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم معاملات پر تجاوز مانگ تو لیتے ہیں‘عمل درامد نہیں کرتے۔ مولانا پرانے سیاسی اور مذہبی لیڈر ہو کر بھی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتاءیں آج تک کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی لیڈر کا کرنا اور کہنا مساوی رہا ہو ۔ یہ دو الگ سے امور ہیں لہذا انھیں الگ الگ خانوں میں رکھ کر سوچنا اور زیر بحث لانے کی ضرورت ہے اور کسی سطع پر آلودگی نہیں ہونی چاہیے ورنہ خرابی اور فساد کا دروازہ کھل جاءے گا یا کسی مذہبی کے کہنے اور کرنے میں کسی بھی سطع پر توازن ملتا ہو۔ یہ بات بالکل ایسی ہی ہے کہ کوئ آدمی بستر پر سو بھی رہا ہو اور دفتر میں کام بھی کر رہا ہو۔ کہنے اور کرنے کو دو الگ حتیتیں دی جاءیں گی تو خرابی جگہ نہ پا سکے گی۔ کہہ کر نہ کرنا ہی تو نورا گیم ہے۔ اگر نورا خاموش رہتا تو جءے جءےکار کیسے ہوتی اور وہ نورا سے چوہدری نور محمد کیسے اور کن بنیادوں پر کہلاتا؟!
ان حقاءق کے تناظر میں اشفاق کو بھی این آر او قانون اور سرکاری ضابطے کو بھولنا نہیں چاہیے اور اپنی بہن کے سسر کی موت پر مٹی ڈالنی چاہیے۔
http://www.forumpakistan.com/qanoun-zabte-aur-noura-game-t85243.html#ixzz1tv467MZh
سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں
کل ہی کی بات ہے‘ میں کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ گھروالی چاءے لے کر نازل ہو گئ۔ مجھے سوچ میں ڈوبا میں ڈوبا ہوا دیکھ کر بولی “کیا بات ہے خیر تو ہے‘ کس سوچ میں ڈوبے ہوءےہو؟!"
"نہیں کوئ ایسی خاص بات نہیں"
"پھر بھی"
مجھے اپنی پنشن کے بےبابائ ہونے کے سبب پنشن آڈر میں کیڑا بھرتی کرنے کا تذکرہ اچھا نہ لگا۔ ہر روز ایک ہی راگ سن کر کان پک جاتے ہیں۔ دوسرا اس نے مجھے ہی جھوٹا کرنا تھا۔ جب رشوت اصول اور ضابطہ بن گئ ہو تو حاجی ثناءالله بننے کی کیا ضرورت ہے۔ اصول اور ضابطے سے انکار موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی کہ اصلاح اور بہتری جو کسی کی معدہ کشی کا سبب بنتی ہو جرم کبیرہ سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ دوسرا میرے اپنے حوالہ ہی سے سہی‘ اصلاح اور بہتری کا ٹھیکہ میں نے کیوں لے رکھا ہے۔ یہ حاکم کا کام ہے‘ وہ کرے نہ کرے‘ مجھے اس سے کیا۔ میرے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھتے ہیں۔ اس میں کسی اور کو ٹانگ زنی کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں تو لوگ اپنا کام ایمانداری تو بہت دور کی بات بددیانتی سے کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لہذا مجھے نہایت فرمانبرداری سے زر رشوت ادا کرکے کام نکلوا لینا چاہیے تھا۔ اب اپنی کرنی کی بھگتوں۔ایک ہی با ت پر ایک ہی انداز سے بےعزاتی کروانا سراسر بدذوقی تھی۔ کم از کم انداز اور ذاءقہ تو بدلا جانا چاہیے۔ ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھا جا سکتا ہے۔ اچانک ایک نئ با ت میرے ذہن میں آئ۔ میں نے اس کے سوال کے جواب میں عرض کیا“ کوئ بہت گڑبڑ میرے اندر چل رہی ہے۔"
"کیوں کیا ہوا؟"
"اب عینک سے دھندلا نظر آتا ہے اور بغیرعینک کے تو کچھ نظر آتا ہی نہیں"
"میں تو پہلے ہی کہتی ہوں تمہارے سر میں دماغ نام کی چیز ہی نہیں"
" کیا بکواس کرتی ہو“ میں نے جعلی غصہ دیکھاتے ہوءے کہا۔
"ہاں ٹھیک کہتی ہوں"
"خاک ٹھیک کہتی ہو"
"ارے میں کب کہتی ہوں تمہارے دماغ میں گڑبڑ ہے‘ دماغ ہوگا تو ہی گڑبڑ ہو گی۔"
"یہ کیا پہلیاں بھجوا رہی ہو‘ صاف صاف کہو"
"جاؤ جا کرعینک کا نمبر بدلو"
"میں نے پکا سا منہ بنا کرکہا ارے یہ بات تومیرے ذہن میں ہی نہیں آئ۔ تم جینیس ہو واہ واہ"
"مروں گی تو تمہاری آنکھیں کھولیں گی"
یہ کہہ کر وہ چلی گئ۔ چاءے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔
اس واقعے کے بعد اس کی ذہانت کی دھاک پورے خاندان میں بیٹھ گئ تاہم اصل بات کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی۔ نظر مفت میں تو ٹیسٹ نہیں ہوتی اگر ہو بھی جاءے تو رکشے والامیرا پھوپھڑ تو نہیں جو مفت میں دوکانوں پر لے جاتا پھرے گا۔ اگر گرہ میں مال ہوتا تو اپنی گروی پڑی پنشن حاصل نہ کر لیتا۔ میں اصل پریشانی کسی کو بتا کر اس تماشے کا مزا کرکرا نہیں کرنا جاہتا۔ ہاں البتہ اپنی گھروالی کی ذہانت کی بانگیں دیتا پھرتا ہوں۔
آج ملک عزیز میں سیاسی تناؤ کی فضا ہے۔ گریب گربا کا اس میں کوئ ہاتھ نہیں اور ناہی وہ اس سے کوئ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھیں صرف بھوک پیاس سے خلاصی کی فکر لاحق ہے جس سے چھٹکارے کی سردست کوئ صورت نظر نہیں آتی۔ سیاسی فضا گرم ہو یا سرد‘ انھیں تو بھوک پیاس میں دن رات کرنا ہیں۔ اس مسلے کو دیکھنے کے لیے کبھی کس عینک کا استمال نہیں کیا گیا۔ اس مسلےکے لیے عینک بنائ یا بنوائ ہی نہیں گئ اورناہی ضرورت محسوس کی گئ ہے۔ ہر کسی کی سوچ اپنی ذات تک محدود رہی ہے لہذا عینک کے نمبر بڑھنے یا گھٹنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہاں البتہ حصولی اقتدار کے لیے اکھاڑ پچھاڑ ضرور ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے۔
پہلےپہل دو تین اخبار اور ریڈیو آگہی کی کل بساط تھی۔ بی بی سی کا شہرا تھا۔ آگہی کی کمی کے باعث اتنی بےچینی نہ تھی۔ حکمران عوام سے اور عوام حکمرانوں سے اور ان کی کار گزاری سے بےخبر تھے۔ بےخبری کے سبب توازن کی صورت موجود تھی۔ آج بےخبری یکطرفہ ہے۔ عوام حکمرانوں سے باخبر ہیں لیکن حکمران عوام سے بے خبر ہیں۔ پہلے وقتوں میں سیاسی ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے‘ کؤئ نہیں جانتا تھا لیکن آج میڈیا کے حوالہ سے معمولی سے معمولی بات گلیوں میں گردش کرنے لگتی ہے۔ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات سیر کی سوا سیر بن جاتی ہے۔
بھولے بھالے سیاسی لوگ آج بھی پرانے نمبر کی عینک استمال میں لا رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی عینک کا نمبر بڑھ گیا ہے۔ کمزور گرہ کے لوگ پرانے نمبر کی عینک استمال کریں‘ یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ لوگ تو جھٹ سے نءے نمبر کی عینک خرید سکتے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر کچھ بھی خریدا جا سکتا ہے۔ یہ تو عوام کے تابعدار ہیں اور ان کے درمیان گریب بلکہ مقروض صورت بنا کر جاتے ہیں۔ ان بےچاروں کی گرہ میں ذاتی کیا ہے سب کچھ پرایا ہی تو ہے۔
سیاست کا ہنر دیگر تمام ہنروں سے زیادہ مشکل ہے۔ قدم قدم پر مشکلوں اور آزماءشوں کے کانٹے بکھرے رہتے ہیں۔ چاروں اور خطرے کے بادل امڈے رہتے ہیں۔ ایسے میں جان اور ووٹ خوری کے لیے جھوٹ اور لایعنی وعدوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ خود کو اچھا اور دوسروں کو برا کہنا سیای اخلاقیات کی مجبوری ہوتی ہے۔ پیٹ بھر کھا کر بھوک کا ناٹک کرنا پڑتا ہے۔ چاروں یکے ہاتہ میں رکھنے کی سعی کرنا پڑتی ہے۔ گو کہ بےنمبر پتوں کو بھی بطور ٹیشو پیپر رکھنے کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ بےنمبر دکی کی سر اگر اتفاقا یا تقدرا کسی پچھڑے سیاستدار کے ہاتھ لگ جاءے توملال باکمال دیدنی ہوتا ہے۔ داؤ پر قوم اور اس کے اثاثے لگتے ہیں۔ جیت ہوئ تو پرایا مال اپنا ہوتا ہے۔ مات ہوئ تو لفظ داھندلی تسکین بخش روح افزا بن جاتا ہے۔ وہ مظلومیت کی جیتی جاگتی تصویر بن کر سامنے آتے ہیں اور گھر کی کھانا نہیں پڑتی۔
سیاستداروں کےاثاثوں کی بات زوروں پر رہی ہے۔ ان کے اثاثوں کی بات کرنا سراسر ظلم ہے‘ زیادتی ہے۔ یہ گریب اور مسکین لوگ ہیں۔ جب تک پاکستان کے سارے کے سارے اثاثے ان کے اپنے نہیں ہو جاتے‘ ان کی گربت ختم نہیں ہو سکتی۔ خوشحال عوام کو ملکی قرضوں کی ادءگی میں زندگی گزارنا ہو گی۔ بات کرنی ہے تو تاجروں اور مہامنشی ہاؤس کے لوگوں کے مقینوں کی جاءے۔ پہلے طبقے کے لوگوں کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ انکم ٹیکس والے ان کے دکھنے والے دانتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ثانی الذکر طبقہ خود محتسب اورہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہے۔ آج گریب لوگوں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بالا طبقے کے خسارے اور قرض کو چکایا جا سکے۔ اس طرح وہ لوگوں کے نجی وساءل کو بھی بخوبی ہاتھ میں کر سکیں گے۔ میری یہ گزارش سیاست کی پرانی عینک کی زد میں نہیں آسکے گی۔ اس لیے سیاسی عینک کا نمبر تبدیل کرنے سے ہی سیاسی دھندلاہٹ ختم ہو سکے گی۔
http://www.forumpakistan.com/siyasatdan-ainak-ka-nambar-badlain-t84966.html#ixzz1tv4OL9jX
وہ دن کب آءے گا؟
بڑے آدمی کی سوچ بڑی۔ مارکونی نے سوچا ریڈیو ایجاد کر مارا۔ ریڈیو ہی وہ بنیادی ایجاد ہے جس کے نتیجہ میں ٹی وی‘ واءرلس‘ بڑے بڑے ریڈر‘ انٹرنیٹ وغیرہ وجود پذیر ہوءے۔ یہ سوچ ہی کا کمال ہے کہ نئ نئ چیزیں آج دیکھنے اور استعمال کرنے کو مل رہی ہیں۔ سوچ کے نتیجہ میں بڑی بڑی الجھی گتھیاں سلجھ جاتی ہیں اور سلجھی گتھیاں الجھ جاتی ہیں۔ گویا سوچ کے نتیجہ میں بہت کچھ ہاتھ لگتا ہے اور بہت کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اب یہ سوچ پر انحصار کرتا ہے کہ کچھ ہاتھ سے جاتا ہے یا کچھ ہاتھ میں آتا ہے۔ شاءد ہی کوئ ہو گا جو ہاتھ سے جانے کا قاءل ہو۔ تقدیرا ہاتھ سے کچھ زیادہ ہی نکل جاءے تو یہ الگ بات ہے۔ نقصان کی صورت میں شخص اسے پورا کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات اس کی نوبت نہیں آتی‘ نقصان ہوتے ہی انسان الله کو پیارا ہو جاتا ہے۔ اس کے پچھلےعرصہ دراز تک اس کی نااہلی کے قصے سناتے رہتے ہیں۔ گویا وہ بعد از مرگ بھی لوگوں میں زندہ رہتا ہے۔ نقصان ہونے کے بعد اتفاقا زندہ بچ جاتا ہے اس کے اپنے اور قبر تک ساتھ دینے کا وعدہ کرنے والے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور اس کی وہ وہ خرابیاں نشر کرتے ہیں جن کا اس کو خود علم نہیں ہوتا۔
ماسٹر صاحب آنکھیں بند کءے دھوپ میں کرسی بچھا کر تشریف رکھتے تھے۔ بیگم نے بازار سے کچن کی کوئ اہم اور فوری ضرورت کی چیز لانے کو کہا۔ برہم اور تلخ ہوکر بولے دیکھتی نہیں ہو کہ میں مصروف ہوں۔ لامحالہ بیگم کو حیرانی ہونا تھی۔ اس نے ماسٹر صاحب سے زیادہ برہم اور تلخ ہو کر کہا کیا مصروفیت ہے میں تو تمہیں فارغ بیٹھا دیکھ رہی ہوں۔ بظاہر وہ غلط بھی نہیں تھی۔ میں سوچ رہا ہوں۔ کوئ بھی ماسٹر صاحب کے اس کام کو کام نہیں مانے گا حالانکہ سوچنے سے بڑھ کر کوئ اور کام نہیں ہو سکتا۔ میں پچھلے کئ دن سے علیل پڑا ہوں اور تکلیف میں ہر اگلے دن اضافہ ہی ہوا۔ بیگم دن میں دو سے زیادہ مرتبہ چیک اپ کرانے اور دوا لانے کے لیے کہتی ہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ میں سوچ رہا ہوں تو اسے بڑا تاؤ آتا ہے اور کہتی ہے تم ساری عمر نکمے اور تساہل پسند رہے ہو۔ ہر روز ٹی وی دیکھتی ہے اور یہ کام اس کی شروع سے پہلی اور لازمی ترجیع رہا ہے۔ اس کے باوجود چیک اپ کرانے اور دوا لانے کے لیے فرمان جاری کرتی ہے۔ لگتا ہے وہ خبریں نہیں سنتی۔ اگر اسے خبریں سننے کا اتفاق ہوا ہو تو چیک اپ کرانے اور دوا لانے کا کبھی بھی نہ کہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اس کے دماغ میں یہ سچائ چل رہی ہو کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا مویا سوا لاکھ کا۔ ہو سکتا ہے دوا کھانے کے فورا بعد چل بسوں ۔اس طرح وہ ٹکے جو میں گرہ خود میں رکھتا ہوں اس کے اپنے ہوں گے بلکہ بیوہ الاؤنس بھی اس کی جیب میں ہو گا۔ میرے حقوق پورا کرنے کے حوالہ احسان جتانے کی صعوبت سے مکت ہو جاءے گی۔
یہ معلوم ہو گیا ہے کہ آدم خور ادویات کونسی کمپنی تیار کر رہی ہے۔ اس کا مالک ریکارڈ میں ہو گا۔ ادویات اوکے کرنے والے سلیمانی دیس سے نہیں آءے ہوں گے۔ ادویات تیار کرنے کا جس دفتر سے پروانہ جاری ہوا ہو گا کوئ انڈر گراؤنڈ کا نہیں ہو گا۔ تمام کچھ معلوم ہونے کے باوجود بقول ڈیپٹی ڈایکٹر ایف آئ اے فلاں فلاں فلاں عمل سے گزرنے کے بعد ایف آئ آر درج ہو گی۔ چاہے اس وقت تک ذمہ داران فرار ہو جاءیں۔ اتنا کچھ سامنے آ جانے اور اتنے وساءل رکھنے کے باوجود سوچنے کو پہلا سوال لازمی کا درجہ دیا جا رہا ہے تو ماسٹر صاحب اور میرے سوچنے کو احمقانہ فعل کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ شاءد یہاں بھی ماڑے اور تگڑے کا رولا ہے۔
ماڑے اور تگڑے کا حوالہ گفتگو میں آ گیا ہے تو اس پر مجھے ایک حکایت یاد آ گئ۔ ایک تگڑے کے ہاں ایک ماڑا ملازمت کے لیے چلا گیا۔ انٹرویو میں کامیابی کے بعد اسےایک لاکھ روپیہ ماہانہ پر ملازم رکھ لیا گیا۔ ملازم مضبوط اعصاب کا مالک تھا‘ دل کے دورے سے بچ گیا۔ اس نے مالک سے پوچھا مجھے کام کیا کرنا ہو گا؟ مالک نے مالکانہ انداز میں کہا کام ایسا مشکل نہیں بس تمہیں اتنا سوچنا ہے کہ تمہاری تنخواہ کا اک لاکھ اور تمہیں ملازمت رکھنے کے حوالہ سے مجھے دو لاکھ روپیہ کیسے حاصل ہو سکے گا۔ اب ڈیوٹی پر جاؤ‘ وقت برباد نہ کرو۔ ہمارے ہاں کے طاقتور لوگ وقت کی بڑی قدر کرتے ہیں اور سوچنے کو کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں۔ لوگ کبھی بجلی کبھی گیس کبھی معالجہ کبھی پیٹرول اور پتا نہیں کیا کچھ سوچتے سوچتے ملک عدم کی راہ لیے ہیں۔ اگر سوچ ان کی موت کا سبب نہیں بنتی تو بیماری آ پکڑتی ہے۔ معالجہ نہ میسر آنے کے باوجود نہیں مرتے تو ان کے شدت پسند ہونے میں کوئ گنجاءش نہیں رہ جاتی۔ اتنا سخت جان کوئ شدت پسند ہی سکتا ہے۔ ایسا شہری بھلا کس کام کا جو اپنا ایک لاکھ اور سرکار کے دو یا اس سے زیادہ حاصل کرنے کی سوچ سوچنے میں ناکام رہتا ہے۔
کسی بڑے کے حوالہ سے کاروائ کے معاملہ میں بنیادی حقوق اور عوامی مفاد یک جا نہ ہوں تو کاروائ ممکن ہی نہیں ہوتی۔ نہ بابا مرے اور نہ بیع کی بانٹ ہو۔ بنیادی حقوق کا مجروع ہونا شخصی معاملہ ہے۔ اس سےعوامی مفاد وابستہ نہیں ہوتا اورناہی ہو سکتا ہے۔ یہ معاملہ کس مجمع کے حوالہ سے تو درست ہو سکتا ہے لیکن کسی باقاءدہ سماج کے حوالہ سے درست قرار نہیں پا سکتا۔ باقاءدہ سماج میں ایک شخص کا مفاد پورے سماج سے پیوست ہوتا ہے۔ آج صرف ایک معاملہ ایسا رہ گیا ہے جو بنیادی حقوق اور عوامی مفاد سے کوئ تعلق نہیں رکھتا۔ وہ معاملہ دھنوانوں سے ٹیکس کی وصولی یا ان کی طرف سے رضاکارانہ اداءگی ہے۔ ۔
ٹیکس کی آمدنی کمی کمین عوام کی بھلائ اور بہتری پر صرف نہیں ہوتی ۔ یہ آمدنی کمی کمین عوام کو پھڑکانے‘ اداروں اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے دفترشاہی پر استعمال ہوتی ہے۔ ہاںاتنا ضرور ہے کہ بڑے لوگ اصلی شہریت رکھتے ہیں اور اصل عوام کے درجہ پر فاءز ہوتے ہیں اس حوالہ سے کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکسوں کی عدم اداءگی سے بنیادی حقوق اور مفاد عامہ کو نقصان پہنچتا ہے لہذا ان پر قانون اور قانون والوں کی گرفت لازمی ہے۔
سوچ ہی کا کمال ہے کہ قانون یک چشما بنایا گیا۔ بڑوں کا کیا چاہے وہ کی بھی سطع کا کیا ہو قانون کے ہاتھوں کی پہنچ سے باہر رہتا ہے۔ قانون ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور انھیں اصلی عوام تسلیم کرتا ہے۔ ان کے علاوہ بنیادی حقوق اور مفاد عامہ ایک جھنڈے تلے جمع نہیں ہوتے بلکہ اس بھیڑ کے پاس جھنڈے کا تصور رہتا ہے۔ جھنڈا اور ڈنڈا سرکار کی ملکیت ہوتا ہے۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو سرکار میں وڈیروں کے کا مے گولے اور گماشتے بھی شامل ہوتے ہیں اور یہ بڑے کام کی چیز ہوتے ہیں کیونکہ آڑے وقتوں میں وڈیروں کا کیا ان کے سر پر رکھ کر اصل ریاستی عوام کے حقوق کی رکشا کرنے کا کام سر انجام پاتا رہتا ہے۔ اگر سوچ کا عمل کمزور پڑتا تو کمی کمین عوام بھی بےسری بھیڑ نہ ہوتے بلکہ عوام ہوتے۔ بنیادی حقوق اور عوامی مفاد کو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی صلیب پر مصلوب نہ ہوتے۔
میں سوچ کے حق میں کتنے ہی دلاءل کیوں نہ پیش کر دوں میری گھر والی نہیں مانے گی اور اس کا اصرار ہی رہے گا کہ میں چیک اپ کرا کر دوا ضرور کھاؤں۔ میں چیک اپ کے لءے تیار ہوا ہوں لیکن وہ اسے آدھا سچ مانتی ہے۔ سچ تبھی مکمل ہو گا جب میں دوا کھا کر الله کو پیارا ہو جاؤں گا۔ جب بنیادی حقوق اور مفاد عامہ دو الگ الگ چیزیں ہیں تو چیک اپ اور دوا کو دو الگ چیزیں کیوں نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیا کروں گھر کی عدالت اسے مانے کو تیار ہی نہیں۔ میں اپنی گھر والی کو قاءل نہیں کر سکتا کہ ریاستی قانون مانتا ہے کہ بنیادی حقوق اور مفاد عامہ دو الگ الگ چیزیں ہیں‘ باہر کون میری سنے گا۔
شاءد وہ قانون کو موم کی ناک سمجھتی ہے۔ اتنے لوگ مرے ہیں کس نے پوچھا ہے؟! میری موت کو کون سنجیدہ لے گا۔
میں اعلی شکشا منشی پنجاب کی کلرک شاہی کے ہاتھوں زبح ہو جاؤں یا دوا کھا کر مر جاؤں کسی کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ اس سے مفاد عامہ پر کوئ ضرب نہیں آتی۔ اگر آتی ہے تو اس معاملے کا تعلق بنیادی حقوق سے نہیں ہو سکتا۔ اعلی شکشا منشی پنجاب کی کلرک شاہی اور میری گھروالی کا بنیادی حق ہے کہ وہ مجھے جینے دیں یا موت کے حوالے کر دیں۔ اگر مجھے سوچنے کا حق ہے تو یہ حق ان کو بھی حاصل ہے۔ الله جانے وہ دن کب آءے گا جب شخصی حق سماجی حق قرار پاءے۔
خدا بچاؤ مہم اور طلاق کا آپشن
خدا بچاؤ مہم کا بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے آغاز کیا گیا۔ کسی نے اس جانب توجہ ہی نہ کی کہ خدا تو سب کو بچانے والا ہے۔ وہ ہر گرفت سے بالا ہے۔ پوری کاءنات اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اگر وہ خدا منکر لوگوں کا رب نہ ہوتا تو وہ سارے کے سارے بھوک پیاس سے مر جاتے۔ وہ تو ساری کاءنات کا مالک و خالق ہے۔ یہی نہیں وہ تو اپنی مرضی کا مالک ہے۔ اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں بلکہ ہر کوئ اس کی مرضی و منشا کے تابع ہے۔ کسی نے یہ غور کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہی ہے لیکن ہمارے اور ان کے خدا میں زمین آسمان کا نظریاتی فرق ہے۔ ان کا خدا تین میں تقسیم ہے جب کہ ہمارا خدا تین نہیں‘ ایک ہے۔ وہ تقسیم کے نقص سے بالا ہے۔
خدا بچاؤ مہم کے لیے اسلحہ اور ڈالرز کی بارش ہو گئ۔ خدا بچاؤ مہم میں شامل لوگ مالا مال ہو گءے۔ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ گءے تھے۔ وہ شیطان کی ہولناک چال کو سمجھ نہ سکے۔ خدا بچاؤ مہم میں ان گنت بچے بوڑھے عورتیں اور گھبرو جوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وہ تو ان موت کے گھاٹ اترنے والوں کا بھی خالق ومالک ہے۔ خدا بچاؤ مہم کے ڈالر خوروں کو رجعت پسند‘ شر پسند اور بنیاد پرست کہہ کر زندگی سے محروم کیا گیا۔ خدا بچاؤ پتہ ناکام ٹھرا ہے تو ازدواجی رشتہ ہونے کا دعوی داغ دیا گیا ہے۔
طلاق یقینا بہت برا فعل ہے۔ اہل دانش تو الگ رہے‘ مذاہب نے بھی اس کی آخری حد تک ممانعت کی ہے۔ طلاق کے نتیجہ میں سماجی سطع پر خرابی آتی ہے۔ دو برادریوں میں دشمنی چل نکلتی ہے۔ اس طلاق دشمنی کے نتیجہ میں آتے کل کو کوئ بھی خطرناک صورتحال پیش آ سکتی ہے۔ بات محدود نہیں رہتی۔ بےگناہ‘ غیر متعلق اور بعض اوقات صلع کار بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ پھر بجھاءے نہ بنے والی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں طلاق کا آپشن موجود ہی نہیں۔ امریکہ کا یہ بیان پاک امریکہ دوستی کے اٹوٹ ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔ یہی نہیں یہ اس کی سماج اور مذہب دوستی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کمبل سے چھٹکارے کی کوشش کرو گے تو بھی کمبل خلاصی نہیں کرے گا۔ اس کمبل کی گرمایش اتنی ہے کہ اس کے بغیر بن نہ پاءے گی۔ امریکی چوری کا سواد اور چسکا ہی ایسا ہے کہ کم بخت لگی منہ سے چھٹتی نہیں۔ میں نے یہ تیر ہوا میں نہیں چلایا۔ اس کے بہ ہدف ہونے کا ثبوت کیمرون کا یہ ٹوٹکا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان نہیں چاہتے کہ امریکی ان کے ملک سے واپس جاءیں۔
دنیا کا کوئ بھی اولاد والا طلاق کی حمایت نہیں کرے گا۔ یہاں یہ واضح نہیں کون کس کو طلاق دے گا۔ ہمارے ہاں زیادہ تر مرد‘ عورت کو طلاق دیتا ہے۔ کیمرون کا بیان واضح کرتا ہے کہ پاکستانی سیاست دان امریکہ کو طلاق نہیں دینا چاہتے۔ گویا امریکہ کو ان کی ایسی کوئ خاص ضرورت ہی نہیں بلکہ ان کو چولہا چونکا چلانے کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے۔ یہاں کی سماجی روایت کے تناظر میں دیکھا جاءے تو طلاق کا حق پاکستان کے پاس ہے۔ مرد چاہے نامرد ہو‘ اسے عورت نہیں کہا جا سکتا۔ سیاست دانوں کی یہ غنڈہ نوازی ہے کہ جھوٹ موٹھ سہی‘ ہم پاکستانی مردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ طلاق کے معاملے کا فقط ایک پہلو ہے۔ مغرب میں عورتیں مردوں کو طلاق دیتی ہیں۔اس حوالہ سے طلاق دینے کا حق امریکہ کے پاس چلا جاتا ہے۔ طلاق کا حق ان کے پاس ہو یا ان کے پاس‘ ہم پاکستانی مرد ضرور قرار پاتے ہیں اور یہ ہمارے لیے کمال فخر کی بات ہے کہ ہم نام کے سہی‘ مرد ہیں۔
اس حوالہ سے بات نہیں کروں گا کہ زندگی پر حکومت عورت کرتی ہے۔ مرد زبانی کلامی دبکاڑے اور بڑکیں مارتا ہے۔ لیکن بیگم کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔ جہانگیر کے سارے فیصلے‘ نور جہان کے فیصلے ہیں۔ مرد جو باہر ناسیں پھلاتا ہے لیکن گھر میں صرف اور صرف بطور پانڈی داخل ہوتا ہے۔ کسی معاملہ میں بیگم کی سفارش آ جانے کے بعد اپنا طرز تکلم ہی بدل لیتا ہے۔ جو بھی سہی مرد‘ مرد ہوتا ہے۔ اس کی انا اور سطع بلند ہوتی ہے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں اس معاملے پر گفتگو نہیں کروں گا۔ طلاق کا نقطہ اس امر کی کھلی وضاحت ہے کہ ہم مرد ہیں۔ کیا ہوا جو مردانہ قوت میں ضعف آ گیا ہے۔ یہ ضعف پیدایشی نہیں اس لیے قابل علاج ہے۔ آج ان گنت دواخانے موجود ہیں لہذا عین غین معالجہ ممکن ہے۔ اس میں ایسی گھبرانے یا پریشان ہونے والی کوئ بات ہی نہیں۔
معاملے کا یہ پہلو ذرا پیچیدہ اور گرہ خور ہے کہ آخر وچارے امریکیوں پر یہ دھونس کاری کیوں؟؟؟ پاکستانی سیاست دان اتنے لچڑ کیوں ہو گے ہیں؟!
پشاور یا اس سے پار کے مرد اس ضمن میں ضد کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کا پشاوری ذوق عجیب لگتا ہے۔ اس علاقہ کے لوگ بھی سیاسی نشتوں میں ہوتے ہیں لیکن تعدادی حوالہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ جمہوریت کو تعداد سے مطلب ہوتا ہے۔ مردانہ طاقت چاہے کسی بھی سطع کی ہو۔ عین ممکن ہے سیاسی ہیلو ہاءے میں وہ ڈومینٹ ہوں اور شاید اسی حوالہ سے مردوں کا زنانہ شوق مردانہ میں بدل گیا ہو۔
دینی اور سیاسی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائ انسانی نہیں‘ امریکی بنیادوں پر بحال ہوئ ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں پیش نظر رہنی چاہیں:
ا۔ امریکہ انسانی حقوق کا ٹھکیدار ہے۔ اگر امریکہ کے حوالے سے بحال ہوئ ہے تو اسے انسانی بنیادوں پر لیا جانا چاہیے۔
ب۔ بیگمانہ حکم عدولی کل کلیان کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ کل کلیان طلاق کا دروازہ کھول سکتی ہے جبکہ پاکستان سے تعلقات کے ضمن میں طلاق کا آپشن موجود ہی نہیں۔ جب آپشن ٹھپ ہے تو نیٹو سپلائ کا امریکی بنیادوں پر بحال ہونا غلط اور غیر ضروری نہیں۔
ایک طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے فضائ راستے سےنیٹو کو رسد کی سپلائ روز اول سے جاری ہے۔ ہم سخی لوگ ہیں اور سخیوں کے ڈیرے سے دوست دشمن بلا تخصیص فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرا ہمارے ہاں کا اصول رہا کہ کہو کچھ کرو کچھ۔ جب کہا جاتا ہے کہ فلاں کام نہیں ہو گا تو سمجھ لو وہ کام ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے۔ ہم کسی بھی سطع کی صفائ دے سکتے ہیں لیکن پرنالہ اپنی جگہ پر رکھتے ہیں۔ کسی کو بھوک سے مرتے دیکھنا کوئ صحت مند بات نہں۔ ہم اپنے لوگوں کو بھوک پیاس اور اندھیروں کی موت مار سکتے ہیں لیکن سفید رانوں والوں کو بھوکا مرتے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ بھی کہ معاملہ سفید رانوں تک محدود نہیں ہماری محبوبہ کے پاس ابراہیم لنکن والے نوٹ بھی ہوتے ہیں۔ نوٹ دیکھتے ہی ہمارا موجی موڈ بن جاتا ہے۔ غیرت اصول اور کہا سنا اپنی جگہ‘ نوٹ اپنی جگہ۔
طلاق دینے کی کوئ تو وجہ ہو نی چاہیے۔ امریکہ سے تعلقات آخر کیوں ختم یا خراب کءے جاءیں۔ بچارے سیاسی لوگ پلے سے خرچہ کرکے ممبر بنتے ہیں۔ کیا عوام ان کی ضرورتوں کے مطابق کما کر دیتے ہیں‘ بالکل نہیں۔ امریکہ نوٹ وکھاتا اور چکھاتا ہے اس لیے موڈ کا نہ بننا احمقانہ سی بات ہے۔ یہ لوگ امریکہ کے کام الله واسطے نہیں کرتے۔ اگر پاکستانی عوام کو خود مختاری حاصل کرنے کا اتنا ہی شونق ہے تو امریکہ برابر نوٹ کماءیں وکھاءیں اور ان کی تلی ترائ کریں۔ اگر تلی ترائ نہیں کر سکتے تو چونچ بند رکھیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ طلاق دینے کی صورت میں ناصرف جہیز واپس کرنا پڑے گا بلکہ حق مہر بھی دینا پڑے گا۔ کون دے گا؟!
عوام کے پاس تو دو وقت کی روٹی کھانے کو نہیں حق مہر کہاں سے آءے گا۔ جہیز جو کھایا پیا جا چکا ہے کدھر سے آءے گا۔
امریکہ کو طلاق دینے کا فیصلہ کوئ ون مین گیم نہیں ہے۔ سابق سفیر کا کہنا ہے کہ جب تک پارلیمنٹ فیصلہ نہیں کرتی امریکہ سے تعلقات منجمد نہیں کر سکتے۔ گویا امریکہ کو طلاق دینے کا حق عوام کے پاس نہیں ہے۔ عوام کو اپنی حد میں رہنا چاہیے۔ عوام لاڈلی بھی نہیں ہے جو کھیلن کو چاند مانگ رہی ہے دوسرا چاند ملوکہ جگہ ہے۔ چاند پر صرف اور صرف قبضہ گروپ کا حق ہے۔
ہمارے پڑوس میں ایک جوڑا اقامت رکھتا ہے۔ ان کے تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ بڑے ہی پیارے پیارے بچے ہیں۔ بد قسمتی سے مرد جوا کھیلتا ہے اور نشہ بھی کرتا ہے۔ عورت محنت مشقت کرکے ان سب کا پیٹ بھر تی ہے۔تھکی ماندی جب گھر آتی ہے تو اس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ ایسے میں کوئ چوں بھی کرتا ہے۔ زبانی اور عملی طور خوب لترول کرتی ہے۔ مرد چوں بھی نہیں کرتا۔ چوں کرنے کی اس کے پس گنجاءش ہی نہیں۔
الله نے مرد کو کنبہ کا کفیل بنایا ہے۔ اگر عورت کام کرتی ہے تو یہ مرد کے ساتھ تعاون ہے ورنہ وہ کفالت کی ذمہ دار نہیں۔ خرچ اٹھانے اور تعاون کرنے والے کا ہاتھ اوپر رہتا ہے۔ اس حوالہ سے اسے بزتی کرنے کا بھی پورا حق حاصل ہے۔
امریکہ ہماری کفالت کرتا ہے۔ سارے حق حقوق پورے کر رہا ہے لہذا بزتی کرنے کا بھی اصولی طور پر اسے حق حاصل ہے۔ ہم اس چمکیلی اور نخریلی محوبہ کو طلاق دینا بھی چاہیں تو طلاق نہیں دے سکتے۔ جو ڈالر دیتا ہے اصول اور قانون بھی اسی کا چلتا ہے۔ امریکی عورتیں طلاق دیتی ہیں۔ ہم اس وقت تک امریکہ کی غلامی میں رہیں گے جب تک وہ ہمیں طلاق نہیں دے دیتا۔ ویسے ہماری خیر اسی میں ہے کہ ہم طلاق کا نام بھی زبان پر نہ لاءیں کیونکہ اس نے جس کو بھی طلاق دی ہے اسے لنڈا بچا ہی نہیں کیا اسے لولہ لنگڑا بھی کیا ہے۔
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم
اصولی سی اور صدیوں کے تجربے پر محیط بات ہے کہ غیرت قوموں کو تاج پہناتی ہیں۔ بے غیرتی روڑا کوڑا بھی رہنے نہیں دیتی۔ روڑا کوڑا اس لیے معتبر ہے کہ تلاش کرنے والوں کو اس میں بھی رزق مل جاتا ہے۔ جب بھی معاملات گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں توقیر کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ سارا کا سارا بھرم خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے۔ جس کو کوئ حیثیت نہیں دی گئ ہوتی وہ بھی انگلی اٹھاتا ہے۔ نمبردار بن جاتا ہے۔ جس کے اپنے دامن میں سو چھید ہوتے ہیں اسے بھی باتیں بنانے کا ڈھنگ آ جاتا ہے۔ یہ قصور باتیں بنانے یا انگلی اٹھانے والوں کا نہیں ہوتا بلکہ موقع دینے والوں کا ہوتا ہے۔
یہ حقیقیت بھی روز روشن کی طرح واضح اور عیاں رہی ہے کہ طاقت کے سامنے اونچے شملے والے سر بھی خم رہے ہیں۔ گویا طاقت اور غیرت کا سنگم ہوتا ہے تو ہی بات بنتی ہے۔ کمزور صیح بھی غلط ٹھرایا جاتا ہے۔ اس کی ہر صفائ اور اعلی پاءے کی دلیل بھی اسے سچا قرار نہیں دیتی۔ بھڑیے کا بہانہ اسے چیرنے پھاڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ انسان جونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لیے اس کے بہانے اور دلاءل بھی کمال کے ہوتے ہیں۔ انسان کی یہ بھی صفت ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنی غلطی اوروں کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ ایسی صفائ سے رکھتا ہے کہ پورا زمانہ اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرتا۔
امریکہ کی عمارت گری اس میں کوئ کھوٹ نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمارت گرانے پورا افغانستان امریکہ پر چڑھ دوڑا تھا۔ اس میں بچے بوڑھے عورتیں لاغر بیمار وغیرہ‘ بھی شامل تھے؟!
جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر ان سب کو بندوق نہیں توپ کے منہ پر کیوں رکھ دیا گیا؟
ان کا جرم تو بتایا جاءے۔
لوگوں کو تو مذکرات اور سفارتی حوالہ سے مساءل کا حل تلاشنے کے مشورے اور خود گولے سے مساءل حل کرنے کوشش کو کیا نام دیا جاءے۔
ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے بلی کتے سے کتا بھڑیے سے بھیڑیا چیتے سے چیتا شیر سے شیر ہاتھی سے ہاتھی مرد سے مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا کوئ کام کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواںدھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چلا گیا کہ تم نے مجھے بلی یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔
چوہا کمزور ہے لیکن ڈر کی علامت ہے۔ ڈر اپنی اصل میں انتہائ کمزور چیز ہے۔ کمزوری سے ڈرنا‘ زنانہ خصلت ہے۔ امریکہ اپنی اصل میں انتہائ کمزور ہے۔ کیا کمزوری نہیں ہے کہ اس کی گرفت میں بچے بوڑھے عورتیں لاغر بیمار بھی آ گءے۔ گھروں کے گھر برباد کر دینے کے بعد بھی اس کا چوہا ابھی زندہ ہے۔ چوہا اس سے مرے گا بھی نہیں۔ بشمار اسراءلی بچے مروا دینے کے بعد بھی فرعون کے من کا چوہا مرا نہیں حالنکہ وہ انہیں بانہ بازو بنا سکتا تھا۔
بلوچستان میں انسانی قتل و غارت کا مسلہ امریکی پارلیمان میں بطور قرار داد آ گیا ہے۔ ہمارا ذاتی معاملہ کسی دوسرے ملک کی پارلیان میں آنے کے تین معنی ہیں:
١۔ بلوچستان کی صورت حال بدترین ہو گئ ہے۔
٢۔ بلوچستان کی صورت حال ہماری دسترس میں نہیں رہی۔
٣۔ امریکہ‘ ایران اور چین پر گرفت کے لیے بھیڑیے کا بہانہ بنا کر فوجی کاروائ کا رستہ بنا رہا ہے۔
میری اس گزارش کو ڈینا روہر کے اس بیان کے تناظر میں دیکھیں گے تو معاملہ صاف ہو جاے گا:
امریکہ بلوچ عوام کے قاتلوں کو ہی امداد اور اسلحہ دے رہا۔
صدر آصف علی زرداری کے اس بیان کو بھی آتے کل کے حوالہ سے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے:
ایران کے ساتھ ہیں۔ جارحیت پر امریکہ کو اڈے نہیں دیں گے۔
چوکیدار رات کو آوازہ بلند کرتا ہے کہ جاگدے رہنا میرے تے نہ رہنا۔
ہم اپنے ساتھ نہیں ہیں کسی اور کا خاک ساتھ دیں گے۔ یہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے ایک جونیءر کلرک کی مار نہیں ہیں منشی تو بہت بڑا افسر ہوتا ہے۔ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو چور کو کہتے ہیں سوءے ہوءے ہیں اور گھر والوں کو کہتے ہیں چور آ رہا ہے۔اس نام نہاد ترقی کے دور میں ہم سچ کہہ نہیں سکتے سچ سن نہیں سکتے۔ یہ ہماری سیاسی سماجی یا پھر اقتصادی مجبوری ہے۔
ہمیں اپنے معاملات پر ہی گرفت نہیں کسی دوسرے کی کیا مدد کریں۔ صاف کہہ نہیں سکتے بھائ ہم پر نہ رہنا‘ جب بھی مشکل وقت پڑا ہمیں دشمن کی صف میں سینہ تانے کھڑا پاؤ گے۔ ہم ابراہیم لنکن کی نبوت اور ڈالر کے حسن پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہماری عقل اور غیرت پیٹ می بسیرا رکھتی ہے۔ ہم ازلوں سے بھوک کا شکار ہیں۔ اصل مجنوں کوئ اور ہے ہم تو چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ کہا گیا بجلی نہیں جاءے گی جبکہ بجلی گئ ہوئ ہے۔ گیس کا بل سو ڈیڑھ سو آتا تھا اور گیس سارا دن رہتی تھی۔ آج گیس صرف دکھائ دیتی ہے اور بل پیو کا پیو آتا ہے۔ بجلی جانے سے پہلے کچھ لوگ بیٹھے ہوءے تھے کہ فلاں گھر کے گیس کا بل سات ہزار روپیے آیا ہے اور گھر کے کل افراد چند ایک ہیں۔ لگتا ہے کہ دوزخ کو اس گھر سے پاءپ جاتا ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو الیکشنوں کے موسم میں لنگر خانے کھول دیتے ہیں۔ کٹوں بکروں اور مرغوں کی شامت آ جاتی ہے۔ لوگ دھر سمجھ کر بے دریغ کھاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں امیدوار پلے سے کھلا رہا ہے اور اس کے بعد پیٹ بھر کر اگلے الیکشنوں میں ہی مل پاءے۔ بات کا پہلا حصہ درست نہیں۔ الیکشن وہی لڑتا ہے جس کی ہک میں زور ہوتا ہے۔ جس کی ہک میں زور ہوتا ہے وہ پلے سے کیوں کھلانے لگا ۔ چوری کے ڈنگر ہی چھری تلے آتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان لنگر خانوں میں مردار گوشت دیگ نہیں چڑھتا۔
مردار گوشت دیگ چڑ ھنے کی ایک مثال پچھلے دنوں سننے میں آئ۔ محکمہ ایجوکیشن کے ایک نءے آنے والے ضلعی افسر نے اپنے درجہ چہارم کے ملازم سے کہا بھءی ہمارے آنے کی خوشی میں دعوت وغیرہ کرو۔ اس نے مردہ مرغے دیگ چڑھا دءے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ پر سچے تھے۔ افسر کے آنے کی خوشی میں دعوت تو ہونی چاہیے۔ درجہ چہارم کا ملازم دیگ کیسے چڑھا سکتا ہے۔ دونوں سرخرو ہوءے۔ دیگ چڑھی افسر کی خوشی پوری ہو گئ ملازم کا خرچہ لون مرچ مصالحے پر اٹھا۔ وہ اتنا ہی کر سکتا تھا۔
ممبری کے امیدواروں کا بھی غالبا خرچہ لون مرچ مصالحے پر ہی اٹھتا ہے۔ اب تو اس کی بھی شاید نوبت نہیں آءے گی کیونکہ لون مرچ مصالحے کا خرچہ ادھر ہی بارہ کروڑ ادا کر دیا جاءے گا۔
ایران کے حوالہ سے روس کا بیان حوصلہ بخش لگتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ
Tags:
© 2025 Created by John Santiago.
Powered by