Freedom University

High-Tech, High-Touch For Your Higher Education

پاکستان کا حقیقی خالق کون؟

پاکستان کا حقیقی خالق کون؟

 اپنے نظریے اور اپنی ہی آنکھ سے دیکھی گئ کوئ چیز یا نظریہ درست نتاءج کا حامل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح مکمل طور پر کسی دوسرے کی انگلی پکڑ کر چلنے والے کامیاب زندگی کرنے والوں میں شمار نہیں کءے جا سکتے۔ ہر دو صورتوں میں جانب داری کا عنصر غالب رہتا ہے۔ اصل حقیقت تک رسائ کے لیے لازم ہے کہ معاملے کو اپنے اور دوسروں کے نظریات کے تناظر میں ملاحظہ کیا جاءے۔ ایک صاحب فرما رہے تھے کہ سارا قصور عوام کا ہے جو انھوں نے ووٹ دیتے وقت سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیا۔ بات میں حد درجہ معقولیت نظر آتی ہے۔ اس غلطی کے ساتھ تین باتیں جڑی ہوئ ہیں: ١۔ عوام کے پاس آپشن موجود نہیں تھے۔ انھیں ووٹ دینا ان کی سماجی مجبوری تھی۔ ٢۔ کامیاب ممبر نے کل میں سے کتنے ووٹ میں سے کتنے فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ ٣۔ الیکشن بڑے لوگوں کا کھیل ہے۔ ایک عام اور غریب آدمی خواہ کتنا شریف ایماندار اور پڑھا لکھا کیوں نہ ہو اس میدان میں اترنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اگر تجزیہ کریں گے تومعلوم پڑے گا کہ مجموعی میں سے چار پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے والے نے اسمبلی کی آرام دہ کرسی پر قبضہ جماءے رکھا ہے۔ پچاس فیصد سے زاءد لوگوں نے ووٹ نہ ڈال کر اس طرز حکومت کو مسترد کر دیا ہے۔ باقی میں سے کچھ داموں خریدے گءے ووٹ ہوتے ہیں۔ ایسے ووٹوں کا تعلق اچھائ برائ سے نہیں ہوتا جو دام زیادہ دیتا ہے ووٹ اس کو مل جاتا ہے۔ کچھ ووٹ برادی بیس پر کاسٹ ہوتے ہیں۔ ایسے ووٹوں کا تعلق بھی اچھائ برائ سے نہیں ہوتا۔ کاسٹ ہونے والے ووٹ پانچ چھے امیدواروں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح مجموعی میں سے چار پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے والا کامیاب قرار دے دیا جاتا۔ اس صورتحال کے تناظر میں کہا جاءے کہ یہ عوام کے نماءندے نہیں ہیں اور نہ ہی عوام نے انھیں انتخاب کرنے کا پاپ کیا ہوتا ہے۔ اس میں ایسی کون سی غلط بات ہے۔ایک شخص کو قتل کے کیس میں جج صاحب کے سامنے پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے پوچھا: اوءے قتل توں کیتا اے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا: نہیں حضور کیتا کرایا ای مل گیا اے۔ انھیں انتخاب کرنے کا گناہ عوام سے نہیں ہوا۔ یہ تو انھیں چنے چناءے مل گءے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر برائ جس کا عوام سے کوئ تعلق واسطہ تک نہیں ہوتا عوام سے تعلق جوڑ دیا جاتا ہے اور یہ کوئ آج کی بات نہیں‘ شروع سے ان کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔ کمزوروں باضمیروں اور وطن دوستوں کے ساتھ ایسا ہوتا آیا ہے۔ غداروں مطلب پرستوں خودغرضوں اور حاکم کے گماشتوں کو مورخ ملک و قوم کے ماتھے پر جھومر سجاتا آیا ہے۔ آتے وقت کے لوگ انھیں اپنا ہیرو سمجھتے رہے ہیں۔ وہ کیا جانیں کہ یہ کوبرے سے بھی زیادہ خطرناک لوگ تھے۔ اپنی مطلب پرستی کے لیے یہ عوام میں عوام کی نفسیاتی کمزوری کے حوالہ سے کوئ نعرہ چھوڑتے ہیں۔ عوام ان مطلب پرستوں کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہوءے جذباتی ہو کر مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ انھیں جو بتایا جاتا ہے اس کا سرے کوئ وجود ہی نہیں ہوتا اور ناہی اس حوالہ سے کبھی سوچا گیا ہوتا ہے۔ انگریز نے ہندو مسلم میں تفرقہ ڈالنے اور صدیوں پرانے آپسی تعلقات ختم کرنے کے لیے فورٹ ولیم کالج کے ذریعے ان کی زبان کو دو رسم الخط دے دءے۔ اردو رسم الخط کو مسلمانوں کا قرار دے دیا اور اسے الگ زبان مشہور کر دیا۔ فوج کے لیے رومن لازم قرار دیا گیا۔ یہ بےوقوف لوگ آج تک اس سازش کو نہیں سمجھ سکے۔ ۔ مسلمان کوئ دو صدیوں سے ہندوستان میں آباد نہیں ہیں۔ ان کی آمد کا سلسلہ آقا کریم کے عہد گرامی سے شروع ہو جاتا ہے۔ چوالیس ہجری میں معاویہ کے عہد میں مسلمان ہندوستان پر حملہ آور ہوءے۔ شکست ہو جانے کے بعد ادھر ادھر بکھر گءے۔ منصورہ میں ان کی جکومت قاءم تھی جسے محمد بن قاسم نے برباد کر دیا۔ ۔ہندوستان میں پہلوں اور بعد کے آنے والوں نے یہاں کی عورتوں سے شادیاں اور ان سے بچے پیدا ہوءے۔ ان بچوں نے یہاں کی بھاشا بولی اور یہاں کے باسی کہلاءے۔ مسلمانوں اور ہندوں میں کوئ رولا ہی نہیں تھا۔ سب راضی خوشی رہتے تھے ۔ لین دین تک موجود تھا۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے۔ ایک دوسرے کی مالی مدد کرتے تھے۔ تقریبات اور تہواروں میں بڑے جوش اور جزبے سے شامل ہوتے تھے۔ زبان کی تقسیم سے انگریز تو کامیاب ہو گیا لیکن ان کے سلوک واتفاق کا ستیاناس مار کر رکھ دیا گیا۔ اس نے نفرت کا ایسا بیج بویا جو آج تناور درخت بن گیا ہے۔ جو اس ذیل میں چونچ کھولے گا گنتی کے بغیر چھتر کھاءے۔ کیونکہ آج جھوٹ کو سرکاری طور پر سچ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ یہاں یہ نعرہ بھی موجود تھا: ہندو مسلم سکھ عیسائ سب ہیں بھائ بھائ زبان کی تقسیم کے بعد پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ نعرہ دے دیا گیا۔ اس طرح ہندو مسلم سکھ عیسائ اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ نعروں پر یقین رکھنے والوں نے اس کاز کے لیے حیرت ناک قربانیاں دیں۔ پاکستان بننے کے بعد مہاجر جو عام لوگ تھے بےگھر ہوءے۔ اپنوں کی موت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ وہ وہ قربانیاں دیں کہ سوچ بھی سوچ میں پڑ گئ۔ نواب سر اور خان بہادر پہلے بھی موج کی گزارتے تھے بعد میں بھی موج ان کے مقدر کا حصہ رہی۔ حکومت ان کے حصہ میں آئ۔ عام لوگ روتے تھے آج بھی روتے ہیں اور شاید آتے کل کو بھی روءیں گے۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے حوالہ سے سہی کچھ تو ہوتا۔ اس وقت بڑے بڑے عالم موجود تھے کسی نے نہیں کہا اس نعرے کا تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ کل میں نے کچھ تصاویر دیکھیں۔ یہ لوگ آقا کریم کے ماننے والے ہو ہی نہیں سکتے۔ بطور نمونہ ایک تصویر ملاحظہ ہو: ١٩٠٦ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفسرنس کا سالانہ اجلاس ہو رہا تھا جس کی صدارت نواب وقارالمک کر رہے تھے، نواب سر خواجہ سلیم اللہ خان بہادر جی سی ۔آئ۔ ای۔ ، کے۔ سی ۔ایس۔ آئ نے مسلم لیگ کے قیام کی تجویز کی، جو منظور کر لی گئ۔ اس کا پہلا مقصد انگریز کو وفاداری شو کرنا تھا۔ عوام کی وفاداری کم خان بہادر صاحبان کی وفاداری شو ضرور ہوئ۔ سچی بات تو یہ کہ عوام انگریز کے وفادار بھی نہیں تھے۔ عوام کا بےتحاشا خون بہا لیکن کسی خان بہادر کو خراش تک نہیں آئ ۔باغی ڈاکو کہہ کر حریت پسندوں کو پھانسی لٹکایا گیا۔ ڈیتھ ورانٹ پر انھوں نے بڑے شوق اور تپاک سے دستخط ثبت کءے۔ ایک رویت کے مطابق یہ قرارداد انگریز کے کہنے پر ہوئ۔ اس بات میں سچائ نظر آتی ہے: ١۔ کانگرس کی سردردی تھی اس کا زور اسی طرح توڑا جا سکتا تھا۔ ٢۔ کوئ بھی خان بہادر انگریز سے پوچھے بغیر ٹٹی کے لیے ٹٹی کدے کا رخ کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا اتنا بڑا اقدام اپنی مرضی سے اٹھایا‘ عقل نہیں مانتی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقسیم ایسا واقع کیسے پیش آ گیا: ١۔ انگریز دوسری جنگ عظیم کے بعد کمزور پڑ گیا تھا اور وہ خلاصی چاہتا تھا۔ ٢۔ دو حصوں میں تقسیم معاشی ضرورت تھی۔ ٣۔ ہندوں نے آزادی اور مسلمانوں نے اسلام کے نام پر کوششیں کیں اور قربانیاں دیں۔ ٤۔ امریکی صدر Roosevelt کے حکم پر چرچل نے Cripps کو انڈیا بیجھا۔ یہ طور آج سے ہی مخصوص نہیں شروع سے چلا آتا ہے۔ایک سیاسی جماعت کا نام باکستان کے لوگوں کی جماعت ہے لیکن اسکا مالک و وارث شروع سے ایک خاندان چلا آتا ہے۔ بات کافی لمبی ہو گئ ہے اسے ان الفاظ میں سمیٹتا ہوں۔ پاکستان کسی لیڈر نے نہیں بنایا لوگوں نے نظام مصطفے کے نفاذ کے لیے بنایا۔ ہر سیاسی قوت فراڈ سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ سب جھوٹے مکار اور عمرو عیار کے پوترے ہیں۔ پاکستان بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا ہے۔ اس کی مٹی بڑی ہی قیمتی ہے۔ سونگھ کر دیکھیں شہیدوں کے لہو کی خوشبو آءے گی۔ اسے اللہ کی مہربانی سے صرف اور صرف عوام نے بنایا ہے۔ اگر کوئ خان بہادر نواب صاحب بڑ مارتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ یہ ملک عوام نے بنایا اور عوام ہی کا ہے۔ لوگوں کو خود سے آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہو گا۔ عوام نے برٹش ایسی سپر پاور کو شکست دی۔ اس کے یہ چمچے کیا چیز ہیں۔ حقیقی آزادی کے لیے انھیں ان بگلے بھگتوں کی گردن موڑنا ہو گی وگرنہ آتی نسلیں بھی ان کے استحصال کا شکار رہیں گی۔۔

Views: 23

Reply to This

Badge

Loading…

Events

© 2025   Created by John Santiago.   Powered by

Badges  |  Report an Issue  |  Terms of Service